سورہ
مطففین
ناپ تول میں
کمی کرنے والے کو مطفف کہتے ہیں۔ اس سے ہر وہ شخص مراد ہوسکتا ہے جو دوسروں کا حق
مارتا اور اپنے فرائض منصبی میں کوتاہی کرتا ہو۔ مطففین کی ہلاکت کے اعلان کے ساتھ
سورت کی ابتداء ہورہی ہے اس کے بعد بتایا کہ یہ لوگ اپنے مفادات پر آنچ نہیں آنے
دیتے جبکہ دوسروں کے حقوق کی دھجیاں بھی بکھیر کر رکھ دیتے ہیں۔ اس انسانی کمزوری
کی بڑی وجہ قیامت کے احتساب پر یقین کا نہ ہونا ہے اگر عقیدئہ آخرت کو پختہ کردیا
جائے تو اس خطرناک بیماری کا علاج ہوسکتا ہے۔ پھر اشرار و فجار کا انجام ذکر کرکے
بتایا ہے کہ منکرین آخرت درحقیقت انتہاء پسند اور گناہوں کے عادی لوگ ہوتے ہیں۔
ان کے دل گناہوں کی وجہ سے ’’زنگ آلود‘‘ ہوجاتے ہیں۔
پھر ابرار و اخیار کا قابل رشک انجام ذکر کرکے بتایا کہ جس طرح کافر لوگ دنیا میں
اہل ایمان والوں کا مذاق اڑایا کرتے تھے آج ایمان والے ان کا مذاق اڑائیں گے۔
سورہ
انشقاق
قیامت کے
خوفناک مناظر اور عدل و انصاف کے مظہر ’’بے رحم احتساب‘‘ کے تذکرہ پر
یہ سورت مشتمل ہے۔ آسمان پھٹ جائیں گے اور زمین پھیل کر ایک میدان کی شکل اختیار
کرلے گی اور اللہ کے حکم پر گوش بر آواز ہوں گے۔ انسان کو جہد مسلسل اور مشقت کے
پے در پے مراحل سے گزر کر اپنے رب کے حضور پہنچنا ہوگا۔ دائیں ہاتھ میںنامۂ اعمال
کا مل جانا محاسبہ کے عمل میں نرمی اور سہولت کی نوید ہوگی جبکہ پیٹھ کی طرف سے
بائیں ہاتھ میں نامۂ اعمال کا ملنا کڑے محاسبہ اور ہلاکت کا مظہر ہوگی۔ اس کے
باوجود بھی یہ لوگ آخر ایمان کیوں نہیں لاتے اور قرآن سن کر سجدہ ریز کیوں نہیں
ہوجاتے۔ درحقیقت ان تمام جرائم کے پیچھے عقیدئہ آخرت اور یوم احتساب کے انکار کا
عامل کار فرما ہے۔ ایسے افراد کو درد ناک عذاب کی بشارت سنادیجئے۔ اس سے وہی لوگ
بچ سکیں گے جو ایمان اور اعمال صالحہ پر کاربند ہوں گے ان کے لئے کبھی منقطع نہ
ہونے والا اجرو ثواب ہے۔
سورہ
بروج
اس سورت کے پس
منظر کے طور پر احادیث میں ایک واقعہ آتا ہے کہ ایک نوجوان جو شاہی خرچہ پر بل کر
جواں ہوا تھا مسلمان ہوگیا، بادشاہ نے اس کے قتل کا فیصلہ کیا، اس نے ایمان کے
تحفظ میں اپنی جان قربان کردی، اس واقعہ سے متاثر ہوکر بادشاہ کی رعیت مسلمان
ہوگئی، اس نے خندقیں کھدوا کر ان میں آگ جلا دی اور اعلان کردیا کہ جو ایمان سے
منحرف نہ ہوا اسے خندق پھینک دیا جائے گا، لوگ مرتے مر گئے مگر ایمان سے دستبردار
نہ ہوئے۔ قرآن کریم نے ان کی اس بے مثال قربانی اور دین پر ثابت قدمی کو سراہتے
ہوئے قسمیں کھا کر کہا ہے کہ اپنی طاقت و قوت کے بل بوتے پر خندقوں میں پھینک کر
ایمان والوں کو جلانے والے ان پر غالب ہونے کے باوجود ناکام ہوگئے اور اپنی کمزوری
اور بے کسی کے عالم میں خندقوں کے اندر جلنے والے کامیاب ہوگئے۔ اس سے یہ ثابت ہوا
کہ دنیا کا اقتدار اور غلبہ عارضی ہے، اس پر کامیابی یا ناکامی کا مدار نہیں ہے،
اصل کامیابی ایمان پر ثابت قدمی میں ہے۔ پھر خیر و شر کی قوتوںکے انجام کے تذکرہ
کے ساتھ ہی اللہ کی طاقت و قوت، محبت و مغفرت اور جلال و عظمت کو بیان کرکے مجرموں
پر مضبوط ہاتھ ڈالنے کا اعلان کیا اور پھر فرعون اور ثمود کی ہلاکت کے بیان کے
ساتھ قرآن کریم کے انتہائی محفوظ ہونے کا اعلان ہے ۔
No comments:
Post a Comment