سورہ
طارق
اس سورت کا
مرکزی مضمون مرنے کے بعد زندہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ ستاروں کی قسم کھا کر بتایا کہ جس
طرح نظام شمسی میں ستارے ایک محفوظ و منضبط نظام کے پابند ہیں اسی طرح انسانوں کی
اور ان کے اعمال کی حفاظت کے لئے بھی فرشتے متعین ہیں۔ مرنے کے بعد کی زندگی پر
دلیل کے طور پر انسان کو اپنی تخلیق اول میں غور کی دعوت دی اور بتایا کہ جس نطفہ
سے انسان بنا ہے وہ مرد و عورت کے جسم کے ہر حصہ (صلب سے پچھلا حصہ اور ترائب سے
سامنے کا حصہ مراد ہے) سے جمع ہوکر تیزی کے ساتھ اچھل کر رحم میںمنتقل ہوجاتا ہے
وہ اللہ اسے دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے۔ آسمان سے پانی برساکر اور زمین
پھاڑ کر غلے اور سبزیاں نکال کر انسانی خوراک کا انتظام کرنے والا اس بات کو بیان
کرتا ہے کہ یہ قرآن کریم حق و باطل میں امتیاز پیدا کرنے والی کتاب ہے۔ کافر
سازشیں کررہے ہیں اور اللہ ان کا توڑ کررہے ہیں لہٰذا انہیں مہلت دے دو اور یہ
اللہ سے بچ کر کہیں نہیں جا سکیں گے۔
سورہ
اعلی
ابتداء میں
اللہ تعالیٰ کے ہر عیب و کمزوری سے پاک ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی اس کی قدرت کاملہ
اور انسانوں پر اس کے انعامات و عنایات کا تذکرہ پھر اس بات کا بیان ہے کہ نبی کو
براہِ راست اللہ ہی تعلیم دیتے ہیں جس میں نسیان اور بھول چوک کی کوئی گنجائش نہیں
ہے البتہ اگر اللہ کسی مرحلہ پر قرآن پاک کے کسی حصہ کو منسوخ کرنے کے لئے آپ کے
ذہن سے محو کرنا چاہیں تو کرسکتے ہیں۔ قرآن کریم سے صحیح معنی میں استفادہ وہی
کرسکتا ہے جو اپنے اندر خشیت پیدا کرنے کا خواہش مند ہو اور بدبخت و جہنمی اس
قرآن سے فیض حاصل نہیں کرسکتے۔ اپنے نفس کی اصلاح کرکے اسے پاکیزہ بنانے والا
کامیاب ہے اور یہ کام وہی کرسکتا ہے جو اللہ کے ذکر اور نماز کا عادی ہو۔ اصل
زندگی آخرت کی زندگی ہے اور یہ بات حضرت ابراہیم اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کی
کتابوںمیں بھی لکھی ہوئی موجود ہے۔
سورہ
غاشیہ
قیامت کی
ہولناکی اور شدت اور کافروں پر اترنے والی مشقت و مصیبت اور مؤمنوں کے لئے جنت کی
نعمتوںکے ذکر سے ابتدا کی گئی ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ کے دلائل کا بیان ہے پھر
حضور علیہ السلام کو انسانیت کے لئے یاد دہانی اور نصیحت کرانے کا حکم ہے اور
قیامت کے احتساب کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنے کی تلقین ہے۔
No comments:
Post a Comment