منسوبہ سے
تو نے دیکھا ہی نہیں مجھ کو تجھے کیا
معلوم
وقت نے آج کسے سونپ دیا ہے تجھ کو
کس کے دامن سے ہے باندھا گیا پلّو تیرا
کس نے تقدیر سے وابستہ کیا ہے تجھ کو
تیرے ہونٹوں پہ تو ہیں شرم و حیا کی
مہریں
تیرے ماں باپ نے کیوں نرخ ترا بول دیا
کالے بازار میں نیلام اُٹھا کر تیرا
سبز باغوں کے تصوّر پہ تجھے تول دیا
جو سجائی گئی فردوس نمائش کے لئے
وہ کسی اور کی تعمیر ہے میری تو نہیں
یہ مکانات، یہ جندر، یہ دکانیں، یہ زمیں
میرے اجداد کی جاگیر ہے میری تو نہیں
میں تو آوارہ سا شاعر ہوں مری کیا وقعت
ایک دو گیت پریشان سے گا لیتا ہوں
گاہے گاہے کسی ناکام شرابی کی طرح
ایک دو زہر کے ساغر بھی چڑھا لیتا ہوں
تو کہ اِک وادیِ گلرنگ کی شہزادی ہے
دیکھ بیکار سے انساں کے لئے وقف نہ ہو
تیرے خوابوں کے جزیروں میں بڑی رونق ہے
ایک انجان سے طوفاں کے لئے وقف نہ ہو
سوچ ابھی وقت ہے حالات بدل سکتے ہیں
ورنہ اس رشتۂ بے ربط پہ پچھتائے گی
توڑ اِن کہنہ رسومات کے بندھن ورنہ
جیسے جی موت کے زنداں میں اُتر جائے گی
٭٭٭
No comments:
Post a Comment