معذرت
(ایک دوست کی
شادی پر)
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی نظم کہوں
جس کے الفاظ میں پا زیب کی جھنکاریں
ہوں
جس کے ہر بند میں رقصاں ہوں بہاریں
نغمے
جس کے شعروں میں خیابانوں کی مہکاریں
ہوں
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی گیت کہوں
جس کی تشبیہوں میں ہنستے ہوئے پیمانے
ہوں
جس کے انداز پہ طاری ہو شرابوں کا نغمہ
جس کے مفہوم میں افسانے ہی افسانے ہوں
میں نے چاہا تری شادی پہ کوئی سہرا
لکھوں
جس کی لَے سے کئی گیت ہم آہنگ رہیں
جس سے جاگ اٹھیں مغنّی کی سُریلی تانیں
جس میں افکار کی ترتیب کے سب رنگ رہیں
لیکن اِس وقت مرے ذہن کے ہر پردے میں
چند سلگی ہوئی آہوں کے سوا کچھ بھی
نہیں
میری سانسوں میں ہیں مغموم دلوں کی
چیخیں
جن کی قسمت میں کراہوں کے سوا کچھ بھی
نہیں
جس کی شادی بھی غم و رنج کا مجموعہ ہے
جن کو حاصل نہیں ہوتا کسی لمحہ بھی
فراغ
جن کو ماں باپ سے ملتے ہیں مصائب کے
جہیز
جن کی باراتوں میں جل اُٹھتے ہیں اشکوں
کے چراغ
ایسے حالات میں کیا چیز تجھے نذر کروں
یہ حقائق مجھے مجبور کیے دیتے ہیں
میرے شاہد مرے اخلاص سے مایوس نہ ہو
چند صدمے مجھے معذور کیے دیتے ہیں
No comments:
Post a Comment