سونفیا
راجندر سنگھ بیدی
سونفیے کی خوشبو گاڑھی دھند کی طرح چاروں
طرف پھیلی ہوئی تھی۔ آم کے اس قسم کے بیسیوں پیڑ تھے، جو گور پرساد نام کے اس
بنگلے میں لگے ہوئے تھے۔ کتا گھاس اور ڈاھلیا وغیرہ سے تو کیا ہوتا، موگرے اور
گارڈینیا کی خوشبو بھی سونفیے نے دبا دی تھی، ایسے ہی جیسے لیلا مانک کی جوانی نے
مندر کے بھجنوں کی قدر گھٹا دی تھی۔
یہ آم کی اس تیز تر خوشبو ہی کی وجہ سے تھا کہ
مکندی نے اچھی بھلی بھگوان کی اس لیلا کا نام سونفیا رکھ دیا تھا، ورنہ یہ کیسے
ممکن تھا کہ کوئی ماں کا بیٹا بنگلے سے فرلانگ بھر ادھر ہی (اپنی) چھاتی پر ہاتھ
رکھ کہ کہہ دے کہ سونفیا اس وقت گھر ہی پہ ہے۔ جن مردوں کی ناک کے بالوں میں عورت
کی بو سے کھجلی نہیں ہوتی، وہ تو قرائن ہی سے کہتے تھے —مثلاً یہ کہ سونفیا کا
ریلے سائیکل برآمدے میں اپنے اسٹینڈ پر کھڑا ہے اور اس کا پچھلا پہیہ بودھ لوگوں
کے تقدیر کے چکر کی طرح اپنے آپ ہی دھُرے پہ گھومتا جا رہا ہے، اس کی ٹیلی فنکن
میں کہیں کرناٹکی سنگیت کا بکرا ذبح ہو رہا ہے اور یا پھر اُتر پچھم کی طرف اس کے
کمرے کی خس تھوڑی اٹھی ہوئی ہے، البتہ بلائیند کھنچے ہوئے…
شام کے پانچ بجے تھے۔ لُو ابھی تک زوروں پر تھی۔
پرماتما تو جیسے اپنا کرم دھرم ہی بھول گیا تھا اور مانس کے بدن پر سے کھال کھینچ
کر نرممتا سے اسے کسی نمک کی کان میں دھکیل رہا تھا۔ اَن گنت باریک باریک سے اگنی
بان تھے، جو بدن کے پور پور میں دھنسے جا رہے تھے۔ وہ دراصل ریت کے چھوٹے چھوٹے
ذرّے تھے، جو لُو کے ساتھ دریا کی طرف سے اُڑ اُڑ آتے تھے اور جسم میں پیوست ہو
جاتے تھے۔ گری لال، مکندی کے دوست، نے کہا بھی تھا کہ لُو تھم جائے گی تو چلیں گے،
لیکن مکندی ڈرتا تھا کہ لُو کے تھمتے ہی سونفیا دریا کی طرف نکل جائے گی، جہاں
ایسے بھبھاکا سے موسم میں پھر تھوڑی تسکین کی ہوا چلتی ہے۔ دریا کا جوبن ماتا حصہ
چھوڑ کر، اس جگہ پہ جہاں پانی چھوٹے چھوٹے پوکھروں اور نالیوں میں بٹ جاتا ہے،
انسان اور حیوان ایک ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں۔ کتّے اپنے عضو، اپنے خصیے اور پیٹ پانی
میں ڈبو کر، بڑی بڑی زبانیں باہر نکالے ہانپ رہے ہوتے ہیں اور ان میں سے پسینے کے
بڑے بڑے قطرے باہر ٹپکتے ہیں۔ لوگ باڑ سے بچے ہوئے تربوز ریت میں سے نکلوا کر لاتے
ہیں اور کسی جبر کے عالم میں خالی ہاتھوں ہی سے انھیں پھاڑ کر بڑے بڑے کھپڑ بناتے
ہوئے اپنے منھ اس میں گاڑ دیتے ہیں۔ کچھ دور سے دیکھنے پہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ
تربوز کہاں ختم ہوتا ہے اور ان کا منھ کہاں سے شروع ؟ پہلے یوں لگتا ہے جیسے وہ
تربوز کھارہے ہیں، پھر تربوز انھیں کھاتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ گودا، بیج، منھ، سب
بے تحاشا بکھرے ہوئے نیچے بالو میں دھنستے ہوئے نظر آتے ہیں۔ البتہ جن لوگوں میں
صبر ہوتا ہے وہ تربوز کو ایسے ہی سر کے نیچے رکھ کر ٹھنڈی میٹھی ریت پہ لیٹ جاتے
ہیں اور اپنے نفسانی ہاتھ اس کے گولائیوں پر پھیرنے لگتے ہیں، حتیٰ کہ ان کے
ہاتھوں کی حدت سے تربوز بھی جل اُٹھتا ہے، پھر وہ نہیں جانتے کہ اسے کھائیں یا
پھینک دیں۔ کچھ جذباتی ناکتخدا ایسے ہی جیب میں ہاتھ ڈال کر لیموں کو ملتے جاتے
ہیں جو کہ لُو کا پورا حملہ خود پر لے کر پہلے تو لال ہو اُٹھتا ہے لیکن آخر میں
کالا پڑ جاتا ہے۔
لُو سے بچنے کا ایک ڈھنگ یہ بھی ہوتا ہے البتہ،
ایک یہ بھی رسائین کہ آدمی چلتا ہوا خواہ مخواہ سردی محسوس کرنے لگے۔ اور اگر سوچ
بچار کی اتنی رسائی نہ ہو تو لُو کے تیروں اور دانتوں کو کند اور بے اثر کرنے کے
لیے ایسے ہی ہمک ہمک کر، اچھل اچھل کر گانے لگے!
لل لو، لل لو، لل لو، لل لو……
— پھر
لُو کا کہیں نام و نشان نہیں رہتا، اور نہ انسان کا، کیونکہ جب تک لُو یوگ مایا ہو
چکی ہوتی ہے اور بے چارہ انسان یوگی!
گورپرساد کی باڑیں اور بیلیں سب جھلس چکی تھیں،
کہیں نام کے لیے اوپر کوئی پتّا ہرا رہ گیا تھا۔ اس دبی ہوئی، نا محسوس مسکراہٹ کی
طرح جو دل میں کسی شرارت سے اپنے آپ ہونٹوں پہ چلی آتی ہے۔ گری لال تو پھاٹک کے
باہر ہی رُک گیا اور کہنے لگا: ’’نا بھیا، میں تو نہ جاتا، اندر۔‘‘
’’کیوں
یار؟ ‘‘ مکندی نے پوچھا ’’کیا مصیبت ہے؟‘‘
گری نے پھاٹک کی طرف اشارہ کیا جو یوں تو ہرے رنگ
سے پینٹ کیا گیا تھا،لیکن اس پہ سفیدے سے پتی ہوئی ایک تختی لگی تھی جس پہ کالے
حرفوں میں لکھا تھا: کتے سے بچو!
مکندی گری لال کو کیسے بتاتا کہ کتا دراصل جانور
نہیں ہوتا وہ صرف ایک احساس ہوتا ہے جو کثیف ہو کر چار ٹانگوں، ایک دم اوربڑے بڑے
جبڑوں کو پھیلائے ہوئے بھونکتا چلا آتا ہے۔ ایسی بات نہیں، بیچ میں کہیں بدن بھی
ہوتا ہے اس کا جسے وہ اپنے اندر کی وافر صحت سے اجنبی پہ یوں پھینک دیتا ہے جیسے
غلیل مٹّی کے ڈھیلے کو ۔ ایک پل کے لیے مکندی کو اپنا آپ جاہل، بے معنی اور بے
وقوف لگا۔ اور کتا۔ لیکن آخر سمجھ چلی آئی جو کہ نزع میں بھی بے اختیار اور مجبور
ہو کر چلی آتی ہے اور سونفیے کی زندہ خوشبو سے گڈ مڈ ہو جاتی ہے۔ سمبل کے نرم نرم،
سفید سفید، گداز گداز پری کہانی کی طرح گولے پھاٹک کے آہنی کلیمپ میں پھنسے ہوئے
تھے۔ مکندی نے ایک ہاتھ سے کلیمپ کو اُٹھایا اور دوسرے سے پھاٹک کھولتے ہوئے کہنے
لگا: ’’تم آؤ تو…‘‘
گری لال وہیں رُکا ایک ڈرے ہوئے بچے کی طرح انکار
میں سر ہلاتا رہا۔
مکندی نے گری کے گرد ہاتھ ڈالا اور کہنے لگا:
’’کاٹے گا تو میرا ذمّہ، تمھارے کیا دانت نہیںہیں!‘‘ اور پھر وہ ہنس دیا۔
گری لال کو اب تک یقین نہ تھا ۔ پچھلی بار جب دت
کے مونگرل نے اسے کاٹا تھا تو پورے چودہ ٹیکے لگوانے پڑے تھے۔ نہ صرف پیچھا سوج
گیا تھا بلکہ ٹانگ میں بھی ایک طرح کا لنگ سا پیدا ہو گیا تھا، جو کسی علاج سے نہ
جا رہا تھا اور جس کے کارن گری کی طبیعت ہمیشہ گری گری سی رہتی تھی۔ اس پہ طرفہ یہ
کہ موتی دت کا مونگرل، اس کا دوست ہو گیا تھا۔ موتی کا رنگ کالا تھا، اس لیے صبح
کے وقت جب گری لال ہوا خوری کے لیے نکلتا اور موتی اس کے پیچھے پیچھے چلنا شروع کر
دیتا، تو ایسے معلوم ہوتا جیسے وہ یدھشٹر ہے اور موتی وہ کالا کتا جو یدھشٹر کے
ساتھ ہمالہ کی بلندیوں پہ چلا گیا تھا، جہاں وہ اور اس کا مالک دونوں برفوں میں گل
کر مر گئے تھے۔ مکندی کے مجبور کرنے پہ گری بنگلے کے اندر چلا گیا، لیکن اس انداز
میں کہ اگر ضرورت پڑے تو بھاگ بھی سکے۔ پھر وہ حیران بھی ہو رہا تھا کہ مکندی اپنی
لڑکی سے ملنے آیا ہے، تو ساتھ اسے کیوں لے آیا ہے؟ شاید مکندی کے اندر بھی کوئی
کتا تھا جس سے وہ ڈر رہا تھا اور جس سے بچنے کے لیے اسے کسی بھی دوسرے آدمی کے
ساتھ کی ضرورت تھی۔ ہاں، انسان کو انسان کی ضرورت تو ہے ہی، ورنہ سب مردے اپنے آپ
اُٹھ کر اپنی اپنی قبر میں لیٹیں… خود کو وافر لگنے کے باوجود ایک تحیر گری لال کو
اندر لیے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کسی سر ریلسٹ تصویر میں کے مرد کی آنکھوں کی
طرح پپوٹوں سے دو دو انچ باہر نکلی ہوئی تھیں، اور ان پہ پیٹ بنا ہوا تھا۔ وہ
سونفیا کو دیکھنا، نظروں سے اسے ٹوہنا اور اس کے ساتھ لپٹنا چاہتا تھا۔ سونفیا— جس
کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ہرگز ہرگز خوبصورت نہیں ہے،لیکن اس قدر متناسب اعضا
اور بھرپور صحت والی ہے کہ… (یہاں سے تحریر کا عجز شروع ہو جاتا ہے!)
جن لوگوں نے گورے رنگ پہ جان دی ہو، جانتے ہیں کہ
اس میں آپ کچّے گوشت کے احساس سے نہیں بچ سکتے۔ لیکن سونفیا کا سا کالا، نہ گورا
رنگ ہمیشہ تندرستی کا نہ صرف لبالب بلکہ چھلکتا ہوا جام ہوتا ہے جو مرد کے گوگاں
کو دور افتادہ جنوب مشرقی جزائر میں لے جاتا اور وہاں پوری زندگی گزارنے پہ مجبور
کر دیتا ہے۔ سونفیا کے ملایم اور چکنے بدن کی تعریف گری لال نے کان پور میں سُنی
تھی، جہاں کے چمڑہ رنگنے والے اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سب سے اچھی جلد کون سی
ہوتی ہے۔ پھر لڑکی کو کنواری چاہنے کے باوجود قریبی سے قریبی دوست بھی خوبصورت
عورت کے سلسلے میں اپنے آپ کو بدل کے طور پر رکھتے ہیں۔ وہ دیور کہلواتے اور بھابی
کہتے ہیں اور جو بھی تھوڑی بہت لذت ہاتھ آئے، لے کر چل دیتے ہیں، اور اب تو سونفیے
کی خوشبو اور بھی تیز اور بوجھل ہو گئی تھی۔ بنگلے کا واحد سمبل ہوا اور لُو کے
جھونکوں کے ساتھ اپنا رواں چاروں طرف بکھیر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا، خوشبو چھوٹے
چھوٹے خواب بن کر چاروں طرف بکھر رہی ہے، یا وہ کوئی کنفیٹی ہے جو عشق کو خوش
آمدید کہنے کے لیے اوپر کے کسی حکم سے مکندی پہ گرائی جا رہی ہے، لیکن پھر — لُو؟
عشق سے بڑی لُو اور کون سی ہوتی ہے؟ دونوں دوست،
مکندی اور گری لال، اس راستے پہ چلنے لگے جو دو طرفہ ہو کر، بیچ کے سوکھے سڑے
باغیچے اور خشک فوارے کو لپیٹ میں لے کر، سامنے کے پورچ میں مل جاتا تھا اور جس پہ
لال لال راجستھانی بجری پڑی جوتوں کے منھ میں کچر پچر کر رہی تھی۔ آخر وہی
ہوا۔ مکندی اور گری کی بو پاتے ہی جبرو، سونفیا کے گریٹ ڈین، منھ پھاڑے ہوئے ان کی
طرف لپکا۔ کتے کی آواز کتے ہی کی سی ہوتی ہے، لیکن جبرو کی کچھ شیر کی سی تھی۔
چونکہ کتے اور شیر میں کراس ہو ہی نہیں سکتا،اس لیے جبرو آخر کار کتا ہی تھا۔ وہ
دس برس اور بھی جیتا رہتا تو کتا ہی رہتا، پِلّے ہی پیدا کرتا لیکن اس کے باوجود
اسے یوں خونخوار طریقے سے لپکتے دیکھ کر مکندی اور گری لال وہیں تھم گئے۔ گری تو
مکندی کے پیچھے چھپ گیا اور منھ میں استوتر پڑھنے لگا لیکن مکندی ویسے ہی نڈر کھڑا
تھا، البتہ ہاتھ اس کے بھی صلح کی جھنڈی میں اُٹھے ہوئے تھے اور وہ پکار رہا تھا:
جبرو، جبرو، جبرو…
جو لو گ کتے کی نفسیات سے واقف ہیں، جانتے ہیں کہ
آپ تھم جائیں تو کتا بھی تھم جاتا ہے اور مشکوک انداز سے دیکھتا ہوا کچھ دور کھڑا
بھونکتا ہے۔ وہ کبھی تو ایک ٹک نو وارد کی طرف دیکھتا ہے اور کبھی پیچھے کی طرف
منھ کر کے مالکوں کو کچھ کہتا ہوا معلوم دیتا ہے۔ بیچ میں وہ اگلے پنجوں کے بل
نیچا ہو ہو کے زمین کھڈیرتا، چھوٹی سی جست لیتا، آگے بڑھتا، پیچھے ہٹتا، سر کو
چھوٹے بڑے جھٹکے دیتا ہوا مسلسل بھونکتا چلا جاتا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہہ رہا ہے:
آبیٹا، ماں کا دودھ پیا ہے تو آ مقابلے پہ۔ وہ شہ دیتا ہے اور مات کھاتا ہے، لیکن
یہ سب برابر والے کی اینڈوکرین گلٹی پہ نربھر ہے۔ اگر اس کی گلٹی جلدی جلدی اور
تیز تیز ڈر کے لعاب کو خارج کرنے لگے تو کتا، جس کی سونگھنے کی قوت بے پناہ ہوتی
ہے، پہلے معاملے کی تہہ پہ پہنچ جاتا ہے اور آخر آدمی کہ تہہ پر۔
مکندی بالکل نہ ڈرا۔ اس نے ایک نظر اپنے اور پھر
گری کے کپڑوں کی طرف دیکھا۔ وہ کسی چپراسی، بھنگی یا بھک منگے کے تو نہ تھے جن سے
کتوں کو خدا واسطے کا بیر ہوتا ہے۔ کمینہ! خود چاہے سارا دن کیچڑ اور گندگی میں
کودتا پھاندتا پھرے، لیکن سامنے والے کو برابر صاف اور سُتھرا دیکھنا چاہتا ہے جو
کہ بدمعاشی اور نا انصافی کی انتہا ہے۔ مکندی بدستور — جبرو، جبرو— پکارتا ہوا آگے
بڑھا۔ جبرو نے کچھ رُک کر ایک غیریقینی انداز سے بھونکا، پھر پاس آیا اور مکندی کو
سونگھا، پیچھے کی طرف دیکھ کر بھونکا۔ یہی عمل اس نے گری کے پاس پہنچ کر دُہرایا۔
قریب ہی تھا کہ گری اُلٹے پانو بھاگ نکلے، لیکن مکندی نے مضبوطی کے ساتھ اسے ایک
ہاتھ سے پکڑ لیا اور بولا: ’’سونگھ لینے دے، ایک بار اسے سونگھ لینے دے،
گری۔‘‘ ہو سکتا ہے گری کی پتلون کو سونگھنے پہ جبرو کو کچھ دھندلی دھندلی شکلیں
نظر آئی ہوں۔ پھر اس نے منھ اُٹھا کر گری کی طرف دیکھا۔ کیا یہ وہی ہے؟ بیچ میں
مکندی آ گیا۔ اب جبرو دُم ہلا رہا تھا اور اِدھر اُدھر پھر کر ایک عجیب طرح کی بے
بس اور گڑل آوازیں نکال رہا تھا، جیسے اس کی سمجھ میں کچھ نہ آ رہا ہو۔ پھر وہ
بھاگتا ہوا لکڑی کے کھمبے کے پاس پہنچ گیا جس کے اوپر رات کو روشنی کے لیے بتی لگی
تھی۔ جب ہی اس نے ٹانگ اُٹھائی اور دنیا بھر کے کتوں کی طرح اپنے تناؤ کی تسکین کر
لی۔
سامنے، برآمدے میں، سونفیا کی خادمہ جامن کھڑی
تھی۔ اسے دیکھتے ہی مکندی آگ بگولا ہو اُٹھا: ’’باندھ کے کیوں نہیں رکھتیں اس باپ
کو؟‘‘
جامن ہریانے کے علاقے کی ایک نوخیز لڑکی تھی۔ اس
کا بدن گٹھا ہوا تھا اور رنگ سیاہی مائل ۔ سونفیا نے اسے شاید اپنا رنگ، اپنا بدن
آف سیٹ کرنے کے لیے رکھا ہوا تھا اور مالش میں اپنی گرمی اس تک منتقل کرنے کے
سلسلے میں اسے ٹھنڈائی سردائی وغیرہ پلاتی رہتی تھی۔مکندی کی بات کے جواب میں جامن
شرما دی۔ بھلا شرمانے کی کیا بات تھی اس میں؟ لیکن وہ بے چاری عمر کے اس حصے میں
تھی جس میں لڑکی کو کچھ بھی کہیں، تو وہ شرما جاتی ہے۔ آپ اسے مونگ کی کہیں تو وہ
موٹھ کی سمجھ لیتی ہے اور پھر شرما جاتی ہے۔ آپ پوچھیں: ’’تم شرمائیں کس بات سے؟‘‘
تو اس کے جواب میں بھی وہ شرما جاتی ہے۔
جامن نے برآمدے میں بید کی دو کرسیاں مہمانوں کے
لیے سرکا دیں اور خود مالکن کو اطلاع کرنے کے لیے اندر چلی گئی حالاں کہ جبرو کے
بھونکنے سے اسے ضرور پتہ چل گیا ہو گا کہ کوئی آیا ہے۔ لیکن کسی بھی لڑکی سے، خاص
طور پر جب کہ وہ جوان ہو، یہ امید نہیں کی جا سکتی کہ وہ یوں دھڑ سے باہر چلی آئے
گی۔ پہلے وہ اپنا آپ ٹھیک ٹھاک کرتی ہے، گڑیا کی آنکھ سے اپنا چہرہ آئینے میں
دیکھتی ہوئی وہ اس پہ کے ایک ہی مہاسے کو پاؤڈر سے کوستی ہے اور پھر پاس پڑی کالی
پنسل کو اُٹھا کر ٹھوڑی کے بائیں طرف، دیکھنے والے کی آنکھ کی پتلی کے برابر، ایک
تل سا بناتی، اپنے قاعدے سے پٹے ہوئے بالوں میں سے چند ایک کو سرکش کرتی، آخری بار
آئینے میں دیکھتی ہے کہ اس کے بدن، اس کے لباس میں رات کا تو کچھ نہیں؟ وہ یہ سب
کرتی ہے، چاہے اسے اپنے ملاقاتی سے اس ناخن برابر بھی دل چسپی نہ ہو جسے وہ ابھی
ابھی مینی کیور یا پالش کرتی آئی ہے۔
جب تک مکندی اور گری لال بیٹھ گئے، بالکل ہی۔ جب
ہی گری نے مکندی سے پوچھا: ’’جبرو نے شروع میں بھی کبھی تمھیں کاٹنے کی کوشش نہیں
کی؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
مکندی نے جواب دیا۔
’’کیوں؟
کتے تو…‘‘
’’بات
یہ ہے کہ جب آدمی نے خود کتا رکھا ہو، اسے دوسرے کا کتا کبھی نہیں کاٹتا۔‘‘
’’کیا
مطلب؟‘‘
’’مطلب،
اپنے کتے کی بو اس میں رس بس جاتی ہے نا، جس کا ہمیں تمھیں پتہ نہیں چلتا لیکن کتے
کو ہمیشہ چل جاتا ہے۔ پھر وہ دُم ہلانے، چاٹنے لگتا ہے۔ کتّا ہمیشہ اسے پیار کرتا
ہے جس کے پاس کتا ہو۔‘‘
’’ہاں،
تمھارا وہ براؤں ڈاشنڈ، رکی … بڑا پیارا کتّا ہے!‘‘
جبھی سونفیا اپنے لانبے بالوں کا جوڑا بناتی،
دونوں ہاتھوں سے اسے دباتی ہوئی باہر آئی۔ وہ یہ کام اندر بھی کرسکتی تھی لیکن
شاید وہ یہیں، باہر ہی، اچھا تھا۔ دونوں بازوؤں کے اُٹھنے سے سونفیا کا اصل دکھائی
دیتا تھا، گرانے سے نقل۔ گری لال اور مکندی تعظیماً اُٹھ کھڑے ہوئے اور نمستے کی،
لی۔
گری لال کا تعارف کراتے ہوئے مکندی نے کہا: گری
لال، میرے دوست ہیں، کانپور میں ایل آئی سی میں کام کرتے ہیں۔‘‘
سونفیا نے سر ہلا دیا اور جان بوجھ کر اپنی آنکھوں
میں سے غائب ہو گئی، جیسا کہ وہ اکثر کیا کرتی تھی اور جس سے اس کے کئی گملٹ پیے
ہونے کا احساس ہوتا تھا۔ پھر اس نے ہاتھ کے اشارے سے کہا’’ بیٹھیے۔‘‘
سونفیا بیس بائیس برس کی ایک کھلے ہاتھ پیر والی
لڑکی تھی—— مطمئن بالذات۔ اس کے اس اطمینان میں فن کتنا تھا اور نیچر کتنی، اس کا
اندازہ آسانی سے نہ ہو سکتا تھا۔ اس میں کی آگ کا صرف اتنا ہی پتہ چلتا تھا جتنا
کہ بجلی کے تار کو دیکھنے— صرف دیکھنے سے اس میں کی قوت اور جوش کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے چہرے کے نقوش موٹے موٹے اور بھرے پُرے تھے۔ وہ اپنی عام حرکت میں بھنگڑہ
ناچنے والوں کی طرح سے قوت کو اندر کھینچنے کی بجائے باہر پھینکتی ہوئی معلوم ہوتی
تھی، یا شاید ویسے ہی اس کی صحت عام ہندستانی لڑکیوں سے اچھی تھی۔ جامن —جو دیہاتی
خوبصورتی کا اچھا نمونہ تھی —اس کے سامنے یوں ہی معلوم ہوتی تھی جیسے آم کے سامنے
جامن۔ وہ گوری تھی یا گندمی یا کچھ اور بھی، اس کا فیصلہ کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ
دھوپ میں ہوتی تو تانبا ہو جاتی، سایے میں ہوتی تو سفید، دریا کے کنارے سانولی اور
اپر انڈیا کلب میں سلونی۔ پڑھی لکھی ہونے کے باوجود وہ روز صبح مندر ضرور جاتی
تھی، شاید اس لیے نہیں کہ اس میں اس کی آتما کو شانتی ملتی تھی، بلکہ اس لیے کہ
مندر جانے والا آدمی وقت پہ سوتا اور وقت ہی پہ جاگتا ہے جس سے بدن کی رطوبتیں خشک
نہیں ہوتیں اور وہ ہرا بھرا اور شاداب رہتا ہے، اندر کا فرجڈیئر، جو جسم کے اعضا
کو یکجا اور تر و تازہ رکھتا ہے، اچھی طرح کام کرتا ہے۔ اسی لیے جب مندر سے، سفید
ساری میں ملبوس، سونفیا باہر آتی تو دیوی لگتی اور کلب میں جاتی تو صوفیا لارین۔
اس کی آواز میں سے کئی ریزے، کئی دانے غائب تھے۔ شاید وہ اپنے ارادے سے انھیں غائب
کر دیتی تھی۔ بہرحال، اس کی آواز میں ایک انگیخت پیدا کرنے والا کھرکھرا پن، ایک
اٹوٹ رکھب سا رہتا تھا جو کبھی مدھم پہ نہ پہنچتا، جیسے وہ بیٹھے بیٹھے اپنی
آنکھوں سے مفرور ہو جاتی تھی، ایسے ہی گلے سے بھی۔
جامن نے ایک اور بید کی کرسی سرکا دی لیکن سونفیا
نے بیٹھنے کی کوشش ہی نہ کی۔ یوں ہی کھڑے کھڑے وہ مغایرت کے انداز میں بولی:
’’کہیے؟‘‘
مکندی نے گھبرا کر اس کی طرف دیکھا— مطلب یوں
تھوڑے کہتے ہیں؟
پھر سونفیا نے بازو اُٹھا کر اپنے جوڑے میں ایک
سوئی کو دبایا اور انگریزی میں روکھے پھیکے انداز سے کہا: ’’میں آپ کے لیے کیا
کرسکتی ہوں؟‘‘
مکندی کے اوسان اور بھی خطا ہو گئے۔ گری ساتھ نہ
ہوتا تو وہ اُسے جوتا بھی مار دیتی تو کوئی پروا نہ تھی،لیکن اس وقت… مکندی کو غصہ
آیا مگر وہ کیا کرسکتا تھا؟ قدرت میں کتنی بے رحمی تھی جو مرد کو عورت سے اور عورت
کو مرد سے بے نیاز نہ ہونے دیتی تھی۔ کاش وہ اپنے آپ میں مکمل ہوتے۔ سونفیا نے
ہمیشہ اس سے ایسی ہی بے رُخی برتی تھی۔ آخر اس کی وجہ کیا تھی!وہ تعلیم یافتہ تھا۔
لکھنؤ سے ایل ایل ڈی کر چکا تھا۔ پھر وہ شکل و صورت کے اعتبار سے بھی اچھا تھا۔
پچھلے ہی سال وہ صحت کے مقابلے میں مسٹر لکھنؤ قرار دیا گیا تھا۔ مکندی نے اپنے آپ
کو روکا۔ اندر کے جبرو کو تہذیب و اخلاق کی ایک موٹی سی زنجیر کے ساتھ باندھ دیا،
ورنہ اگر کوئی لڑکا بڑھ کر کسی لڑکی سے کہہ دے: آپ میرے لیے کر ہی کیا سکتی ہیں؟
تو پھر لڑکی کے پاس کیا رہ جاتا ہے؟ سوائے اس کے کہ اس کا رنگ پیلا پڑ جائے اور
منھ پر کف لاتے ہوئے وہ اپنے بازو کی سویپ کے ساتھ باہر کی طرف انگلی کرتے ہوئے
کہے: چلے جائیے، نکل جائیے میرے یہاں سے۔ مصلحت… مکندی نے کہا تو صرف یہ: ’’اس دن…
آج میں ادھر سے گزر رہا تھا تو سوچا لیلا دیوی ہی کو سلام کرتے چلیں۔ اس دن اپر
انڈیا کلب کے فینسی ڈریس میں تو آپ نے کمال ہی کر دیا! بالکل مریہ گونڈ لڑکی معلوم
ہوتی تھیں۔‘‘ اور پھر دل میں کہا:ایک موتیاری جسے سر پہ چٹائی رکھے ہوئے اس کا چیلک
سرِشام ہاتھ سے پکڑ کر گھوٹل میں لے آتا ہے۔ رات بھر وہ کنوارے ایک دوسرے سے
لپٹتے، پیار کرتے ہیں۔صبح ہوتے ہی بیلوسا انھیں باہر دھکیل دیتی ہے، سورج کی روشنی
سے پہلے کیونکہ وہ رات کی شرارتوں کو یاد کرتے ہوئے بہت زیادہ ہنستے اور کھلکھلاتے
ہیں۔
سونفیا نے کہا بھی تو صرف اتنا: ’’شکریہ!‘‘
وہ ٹھنڈی تھی؟ برف کا تودہ؟ پتھر میں بھی تیل ہوتا
ہے۔ شاید کسی بو، کسی لمس نے اس کے اندر کی آگ کو نہیں بھڑکایا تھا۔ اتنی لُو میں
بھی وہ پگھل اور پسیج نہ رہی تھی۔ مکندی نے کچھ اور باتیں کرنے کی کوشش کی۔ ایسی
باتیں جن کا جواب لمبا ہو، لیکن سونفیا جانے اختصار کی روح کو پا گئی تھی۔ وہ ایک
چھوٹا سا جواب دیتی، بلکہ ٹکا سا۔ مکندی نے اسے وہ سماں یاد دلایا جب وہ سفید ساری
میں ملبوس نروتم کے مندر سے نکلی تھی اور صبح کے دھندلکے کی طرح سے حسین معلوم ہو
رہی تھی اور شانت۔ مندر کی سیڑھیوں پر کوئی سور داس اکتارے پر ولمپت لَے میں
بھیرویں کے سُر اَلاپ رہا تھا۔ اور دل میں کہا: جب تم سے لپٹنے، تمھیں پکڑنے کے
بجائے تمھارے قدموں پہ لوٹنے کو جی چاہتا ہے۔
مندر سے لوٹنے والی یوتی سے بات مت کرو کیوں کہ وہ
آفاقی ہو چکی ہے۔ اس وقت کا انتظار کرو جب ایک بار پھر اس میں مقامیت لوٹ آئے…
لیکن کیسے؟ سونفیا تو جیسے مندر سے نکلتی ہی نہ
تھی، مقامیت کو لوٹتی ہی نہ تھی۔ کسی کو سامنے پاتے ہی وہ کہیں دور پہنچ جاتی۔
دریا کے کنارے اس کی سہیلیوں کا جمگھٹ اس کے ارد گرد رہتا تھا اور کلب میں منچلوں
کا۔ اور وہ کسی کی پکڑ میں نہ آتی تھی۔ وہ اَنیک سے ایک ہوتی تو بات بنتی۔ وہ اپنے
بدن کو صحت سے بھرتی جا رہی تھی جو کہ اب تک قارون کا خزانہ ہو چکی تھی۔ وہ اس
سیدھی سادی حقیقت کو نہ جانتی تھی کہ عورت نام ہے خرچ ہونے کا، گھٹنے اور بڑھنے
کا، مناسب وقت کے بعد خاک اور خون میں لت پت ہونے کا —ورنہ وہ عورت نہیں رہتی،
لیونارڈو کا شہکار ہو کر رہ جاتی ہے۔
یا شاید مکندی اناڑی تھا اور نہیں جانتا تھا کہ
لڑکی سے بات کیسے کی جاتی ہے؟ بات کر بھی لی جائے تو آگے کیسے بڑھائی جاتی ہے؟
شرافت سے بات بنتی ہے یا غنڈہ گردی سے؟ اسے صحیح تو ایک طرف، غلط سلط طریقے سے بھی
لڑکی کا تجربہ نہیں ہوا تھا۔ غالباً وہ ان مردوں میں تھا جو کسی طرح سے اپنے چال
چلن کو خراب نہیں ہونے دیتے اور سمجھتے ہیں، یہ بات عورت کو بہت متاثر کرتی ہے۔
جانے سونفیا اس سے اس لیے بات نہیں کرتی کہ وہ
خوبصورت تھا اور مسٹر لکھنؤ۔ ایسے آدمی کے بارے میں لڑکی کو یقین نہیں آتا۔ یا پھر
اس میں ایسا کوئی جذبہ ہے جس سے وہ بدصورت اور جنگلی قسم کے آدمی کو ترجیح دیتی
ہے۔ کیا اس لیے کہ حسن اور خوبصورتی، نرمی اور گدازپن اور مظلومیت اسی کا اجارہ
ہیں اور بدصورتی اور کرختگی اور بربریت مرد کا؟
مکندی نے سوچ لیا کہ اب اس کی دوڑ دھوپ سے کوئی
کام نہیں بنتا۔ گورپرساد ہی کچھ ہو تو ہو۔ بنگلے سے نکلتے وقت جبرو نے منھ اٹھا کر
بھی تو نہ دیکھا: کہاں وہ شور و شغب کے زلزلے لے آیا تھا۔ پھاٹک کی طرف بڑھتے وقت
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے سمبل نے اپنی پری کہانیاں روک کر ان کے گھٹیا، جاسوسی قصے
بنا دیے تھے اور انھیں ریلوے کے بُک اسٹالوں پہ بیچنا شروع کر دیا تھا۔ ڈھلتی ہوئی
شام میں وہ گالے Nuns کی طرح سے سفید اور پاکیزہ خیالات کی بجائے کالے
بھجنگ، گندے اور فحش د لال ہو گئے تھے۔ آم گلنے، سڑنے لگے تھے اور انسان
کے کام و دہن نے ذایقے سے منھ موڑتے ہوئے انھیں پیڑ ہی پہ
متعفن ہونے کے لیے چھوڑ دیا تھا، اور جامن کو اس بات کے لیے مجبور کر دیا تھا کہ
وہ جبرو سے مجامعت کرے اور بار بار کرے۔
اسی شام اپر انڈیا کلب میں بڑی رونق تھی۔ بمبئی سے
ارشاد پنجتن (Mime) نقال چلا آیا تھا، جس نے حال ہی میں مغرب کا نہایت
کامیاب دورہ کیا تھا۔ ہر دار الخلافے میں اس کی کمانڈ پر فارمنس ہوئی تھی جو تیقن
کی چمک اس کی آنکھوں میں اور خوش حالی کی سرخی گالوں پہ لے آئی تھی۔ اس نے لوگوں
کی تمام تر توجہ اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ صرف مکندی ان سب سے کٹا ایک طرف بیٹھا
گملٹ میں اپنی کچھ دیر پہلے کی ہزیمت کو ڈبو رہا تھا۔ گری لال جان بوجھ کر سٹک گیا
تھا۔ ہاں، ہارے ہوئے آدمی کے ساتھ ہمدردی کرو تو بُرا، نہ کرو تو بُرا۔ اور اس ہاں
اور نہ کے بیچ کا فن نہایت گھٹیا اور بھونڈا ہوتا ہے۔ نہ معلوم سونفیا کے سلسلے
میں مکندی نے اس کے سامنے کیا کچھ ڈینگیں ماری تھیں، جو —
برج اور شطرنج کھیلنے والے بھی اپنے اپنے کھیل
چھوڑ کر تھیٹر کارنر میں ارشاد پنجتن کی نقالی دیکھنے چلے گئے تھے۔ بیرے بے کاری
کے عالم میں وہسکی، شیری یا رَم کی بوتل کے ساتھ خالی گلاس اور سوڈا ٹرے پہ رکھے
اور چابی ہاتھ میں لیے اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ آرکسٹرا کا گوانی لیڈر اپنے
ریگولیشن سوٹ میں کوئی اذیت سی محسوس کر رہا تھا۔ دن کے مقابلے میں اس وقت گرمی کم
تھی کیوں کہ لُو چلنا بند ہو گئی تھی، لیکن اس پہ بھی شرابی کے اُلٹے سانس کی طرح
سے بیچ بیچ میں گرم اور متعفن ہوا کا جھونکا چلا آتا تھا،کیوں کہ کلب کے نیچے ہی
شہر کا گندا نالہ تھا جس کا پانی کوئی سو ڈیڑھ سو گز پرے دریا میں گرتا تھا۔ وہ
بار بار اپنا سفید رومال نکال کر اپنا منھ اور اپنی گردن پونچھتا تھا اور پھر، نہ
جانے کیوں، اس رومال کو دیکھتا تھا جس پہ مٹی اور پسینے کی میل چلی آئی تھی۔ شاید
وہ سمجھتا تھا کہ اس کا کالا رنگ جانے لگا ہے اور کچھ دنوں میں وہ گورا ہو جائے
گا۔ پھر وہ جھلّا کر ڈبل بیس پہ اپنا ہاتھ مار دیتا تھا جس سے عجیب طرح کی بیزار
کر دینے والی آواز نکلتی تھی۔ اکیلا ساز اور وہ بھی بے وقت،بے
ہنگم طریقے سے بجے تو ایک اینٹی میوزک کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ جتنا میوزک سے
لطف آتا ہے، اتنی ہی اینٹی میوزک سے بے لطفی پیدا ہوتی ہے۔ آخر سارا
سلسلہ ساز و آہنگ ہی کا ہے نا!
شیلو، گورنر کے . اے. ڈی. سی کی لڑکی تھی، اس لیے
وہ اپنے آپ کو گورنر ہی سمجھتی تھی، اور یہ تھا بھی ٹھیک کیونکہ بڈھا گورنر جب بھی
دورے پہ جاتا تھا، شیلو کو اپنے خاص سیلون میں ساتھ لے جاتا تھا اور کسی کو پتہ نہ
چلتا تھا کہ کسی گھاتک کو پھانسی کی سزا سے عمر قید میں بدل جانے یا بالکل ہی چھوٹ
جانے میں شیلو کا کتنا ہاتھ تھا۔ شیلو کی عمر کوئی تیس ایک برس کی تھی مگر وہ
کنواری تھی۔ شادی کے سلسلے میں اس کی عمر ممکن شوہر وں کو آزمانے ہی میں گزر گئی
تھی۔ لڑکیوں کے لیے اکثر ان کے بڑے باپ کی بیٹی ہونا، زیادہ خوبصورت اور پڑھی لکھی
ہونا، ان کی شادی کے منافی ہوتا ہے۔ شیلو یوں کوئی ایسی فلرٹ نہ تھی لیکن اس وقت،
ساز اور آہنگ کے کھیل میں، وہ اس کم بخت مائیم کے آ جانے سے صرف ساز ہو کر رہ گئی
تھی۔ کچھ ہی دیر پہلے، سدھانت، شہر کے چیمبر آف کامرس کے پریذیڈنٹ کے ساتھ وہ
والٹس ناچتی رہی تھی، لیکن مائیم کے منظر پہ آتے ہی سدھانت نے شیلو کو یوں چھوڑ
دیا جیسے انگریز لوگ ہاتھ سے گرم گرم آلو چھوڑ دیتے ہیں اور والٹس کا آہنگ شیلو کے
بدن میں تھم کر رہ گیا تھا۔ کسی لڑکی میں آہنگ شروع ہی نہ ہو تو وہ برسوں کسی تان
پرے کی طرح سے گھر میں ایک کھونٹی پہ لٹکی ہوئی رہ سکتی ہے، لیکن اگر وہ شروع ہو
جائے یا اسے کوئی چھیڑ دے تو پھر وہ دھُن یا ڈانس نمبر کو تکمیل تک پہنچائے بغیر نہیں
رہ سکتی—— اور والٹس کا آہنگ شیلو کے تقریباً کنوارے بدن میں تھم کر رہ گیا تھا
جسے وہ کہیں بھی، کیسے بھی جھٹک دینا چاہتی تھی۔
اور سامنے مکندی بیٹھا تھا — خوبصورت اور مسٹر
لکھنؤ!
اور اکیلا!
جانے اکائی عورت کو کیوں ہمیشہ پریشان کرتی ہے۔
شاید اس لیے کہ وہ دوئی کی نمایندہ ہے اور اسے بالکل برداشت نہیں کرسکتی۔ وہ
ہندسوں میں دو، تین، چار—ان سے زیادہ کی دلیل ہے، اس لیے جب کہیں کوئی رشتے کی بات
چلتی ہے تو اس کا استمرار دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور وہ فوراً حرکت میں آ جاتی
ہے۔ وہ —جمع اور ضرب کی قائل—خیر، یہ حساب کی باتیں ہیں۔ شیلو دونوں ہاتھ اُٹھا
کر، ان سے اپنے سر کے بالوں کو کچھ اور ڈھیلا اور بے ربط کرتی ہوئی مکندی کے پاس
چلی آئی۔
’’آپ…
آپ نہیں دیکھنا چاہتے پینٹو مائیم؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
مکندی نے سر ہلا دیا۔
’’کیوں؟‘‘
’’مجھے
نقل اچھی نہیں لگتی۔‘‘
’’اصل
اچھی لگتی ہے؟‘‘ شیلو نے معنی خیز انداز سے کہا اور پھر اپنے آپ ایک کرسی سرکاتی
ہوئی مکندی کے پاس بیٹھ گئی اور بولی:’’مجھے بھی یہ نقل پسند نہیں، زندگی کی
نقل۔‘‘ وہ خفیف سا ہانپ بھی رہی تھی، جیسے حالات پہ کچھ غصّہ تھا۔ اس نے بیرے کو
آواز دی جو پہلے ہی کہیں بھی، کوئی بھی کام چاہتا تھا۔ وہ بھاگا ہوا آیا، دست
بستہ۔ ابھی اس نے مایوس ہو کر ٹرے بار کے کونٹر پہ جا رکھی تھی۔ شیلو نے آرڈر دیا:
’’ایک شیری، ڈبل!‘‘
نہ چاہتے ہوئے بھی مکندی نے بیرے سے کہا: ’’میرے
حساب میں۔‘‘
’’نہیںنہیں‘‘
شیلو نے احتجاج کیا اور پھر مکندی کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر بیرے کی طرف دیکھتی
ہوئی بولی، ’’اوکے، مورس!‘‘
اور بیرہ ’’یس میڈم‘‘ کہہ کر بار کی طرف چل دیا،
تیز تیز۔
ارشاد پنجتن ایک دندان ساز کی نقل اُتار رہا تھا۔
پہلے اس نے دور سے مریض— فرضی مریض — کو آتے دیکھا اور خوش ہوا کہ گاہک پھنسا۔ اس
کے آنے سے پہلے اس نے کرسی ورسی ٹھیک کی، ہاتھوں سے ہی گرد کو جھاڑا اور جیسے ہی
مریض آیا، اس نے مودّب طریقے سے اسے بیٹھنے کا اشارہ کیا اور پھر ایسے ہی منھ ہلا
ہلا کر اس کی دردناک باتیں سنتا رہا۔ صاف پتہ چلتا تھا کہ بے
چارہ درد کی شدّت سے رات بھر نہیں سویا، لیکن دندان ساز بے نیازی سے اس کی داستان
سنتا رہا۔ پھر اس نے اشارہ کیا کہ سب ٹھیک ہو جائے گا اور اسے ڈینٹسٹ کی کرسی پہ
بیٹھنے کے لیے کہا جس کے بعد اس نے مریض کو منھ کھولنے کی ہدایت دی۔ مائیم چونکہ
دندان ساز بھی خود تھا اور مریض بھی خود ہی، اپنا منھ کچھ اس طریقے سے کھولا کہ وہ
زمانہ یاد آ گیا جب انسان غاروں میں رہا کرتا تھا۔ دندان ساز نے غار کی قسم کے اس
منھ میں ہاتھ ڈالا اور دوسرے ہاتھ سے فرضی بتی کو کھینچ کر مریض کے برابر کیا اور
روشنی میں اندر جھانکا۔ کیا ہوکا سا اندھیرا ہو گا کہ ڈاکٹر کو منھ میں انگلی ڈال
کر مسوڑھوں اور دانتوں کو ٹوہنا پڑا۔ جب ہی وہ فرضی مریض ایک دم ٹیس سے بلبلاتا
دکھائی دیا۔ غالباً دندان ساز کا ہاتھ اندر ہلتے، جھولتے ہوئے دانت اور اس کے پاس
کی کسی ننگی رگ کو جا لگا تھا۔ ہاتھ نکالتے ہوئے ڈاکٹر نے اسے تسلی دی کہ سب ٹھیک
ہو جائے گا۔ اب جب کہ وہ شہر کے سب سے بڑے اور سب سے قابل دندان ساز کے پاس آ گیا
ہے، اسے کسی فکر کی ضرورت نہیں۔ پھر اس نے آنکھوں میں دہشت سمو کر دو تین بار کی
مدراسے بتایا کہ اندر بہت بڑی
Cavity ہے جس میں سے اکبر کے زمانے
کا پورا لشکر مع ہاتھی، ہودے اور گھوڑے وغیرہ کے گزر سکتا ہے—لیکن چنتا کی کوئی
بات ہی نہیں!
پھر اس نے مشین کے اوپر ایک فرضی بوتل سے روئی کے
پھوئے نکالے اور ایک کے بعد دوسرا منھ میں ڈالتے ہوئے اس نے دانت اور اس کے نواح
کو آلایشوں سے پاک کیا۔ پھر دیکھا—بتی کو اور نزدیک کرتے ہوئے—اور سر ہلایا کہ
دانت نکالے بغیر گزارہ نہیں اور چپکے سے اوزاروں کی پلیٹ میں سے زنبور اُٹھایا،جسے
دیکھتے ہی مریض کی رہی سہی جان بھی نکل گئی۔ ڈینٹسٹ کو پھر اسے تسلی دینا پڑی۔
پچکاری سے دانت اور اس کے نواح کے علاقے کو بے حس اور مردہ کرنا پڑا۔ آخر جب دانت،
اس کے اردگرد کا حصّہ، حتیٰ کہ مریض بھی مردہ ہو گئے، تو اس نے زنبور اندر
ڈال کر مضبوطی سے دانت کو پکڑا اور ایک دو جھٹکوں ہی سے اسے باہر نکال دیا۔ اس کے
جھٹکوں کے ساتھ مریض اُچھلتا، بلبلاتا تھا، لیکن اب وہ ایک طرف ڈاکٹر اور دوسری
طرف زنبور کی پکڑ میں تھا! وہ کر کیا سکتا تھا۔ تڑپ کر رہ گیا بے چارہ۔ ڈاکٹر بہت
خوش تھا۔ اس نے دانت کو آنکھوں کے سامنے لا کر دیکھا اور اس کے چہرے پر سے کوئی
پرچھائیں سی گزری۔ جب ہی مریض کے منھ میں اپنا ہاتھ ڈالا تو اسے پتہ چلا کہ ڈاکٹر
نے صحیح و سالم دانت کو نکال دیا تھا۔ ٹوٹا ہوا اور کرم خوردہ دانت ابھی وہیں تھا،
جوں کا توں!
اب مریض اور ڈاکٹر دونوں ایک دوسرے کے پیچھے بھاگ
رہے تھے۔ اسی مشین، اسی فرضی کرسی کے اردگرد اور لوگ بے تحاشا ہنس رہے تھے، تالیاں
بجا رہے تھے۔ وہ مائیم اس قدر کمینہ تھا کہ مریض اور ڈاکٹر دونوں کی چال اور دونوں
کی دوڑ کا ایک دم الگ الگ اور بے حد کامیاب نقشہ کھینچ رہا تھا۔
بیچ میں کہیں سونفیا بھی آ گئی۔ ظاہر ہے کہ تھیٹر
کارنر میں جانے سے پہلے وہ کلب ہال ہی سے گزر کر آئی ہو گی۔ آج اس نے معمول سے
زیادہ دل کش میک اَپ کر رکھا تھا، اس پہ بھی وہ کچھ ایسی کھلی ہوئی نہ تھی جیسی کہ
وہ عام طور پر ہوتی تھی۔ کیا وہ آج صبح مندر نہیں گئی تھی؟
مائیم نے اپنے پروگرام کی دوسری مد شروع کی جو کہ
ایک فرسٹریٹڈ یعنی کہ محروم و مہجور عاشق کے بارے میں تھی۔ سب سے پہلے سدھانت
سونفیا کو دیکھ کر مجمعے سے باہر چلا آیا، پھر رشید علی، کلب کا منیجر ۔ آرکسٹرا
کے لوگ چوکنّے ہو گئے اور گوانی لیڈر اپنی ٹائی کی ناٹ کو کستا ہوا ڈبل بیس کے
پیچھے آ بیٹھا۔ بیرہ لوگ بھی مستعد ہو گئے۔ پھر ابھینکر نے اپنے ساتھی کا ہاتھ
پکڑا اور اسے مجمعے میں سے کھینچ لایا اور کشاں کشاں بساط پر لے آیا، بظاہر اگلی
چال کے لیے۔ بے چارے مائیم کے کھیل کا شیرازہ بکھر چکا تھا اور وہ پھٹی پھٹی
آنکھوں سے دوسروں کا کھیل دیکھ رہا تھا!
سدھانت اور کچھ دوسرے لوگوں نے دیکھا، مکندی اور
شیلو وہاں سے غائب تھے۔ مرمر کے میز کی ٹاپ پہ دو گلاس خالی پڑے تھے۔ ایش ٹرے میں
بہت سی سگریٹوں کے بچے ہوئے ٹکڑے اور ایک طرف دستخط کیا ہوا بِل،جس پہ پانچ
کا ٹپ پڑا تھا اور جو صدر دروازے سے آنے والی ہوا میں پھڑپھڑا رہا تھا!
کچھ دن بیت گئے ۔ مکندی اور گری لال آپس میں ملے
اور اور ایک دوسرے کی کمر میں ٹہوکے دے دے کر ہنستے ہنساتے رہے۔
چند لوگوں کو صرف سنیچر کی شام کو چھٹی کا احساس
ہوتا ہے، کیوں کہ اگلے روز کہیں آنا جانا تو ہوتا نہیں، مزے سے آدمی بستر پر پڑا
منھ میں پرانی یادوں کی خوبانیاں پپول سکتا ہے اور اس کے ذائقے سے قندِ مکرر کا
لطف اُٹھا سکتا ہے—جو قند سے بھی زیادہ لذیذ ہوتا ہے۔
سنیچر کی شام کو جب گری لال مکندی کے ہاں شری نواس
میں آیا تو دیکھا مکندی کا چہرہ کانوں کی لووں تک لال ہو رہا ہے۔ وہ خوش بھی تھا
اور نہیں بھی۔ گری لال نے اس کی وجہ پوچھی تو دیکھا کہ جواب دینے میں مکندی بھی
ایکا ایکی اپنی نظروں سے کہیں غائب ہو گیا ہے اور ہر بات کا جواب ’’ایں؟‘‘ سے شروع
کرتا ہے جس کے نتیجے کے طور پر پوچھنے والے کو خواہ مخواہ اپنی بات دُہرانی پڑتی
ہے۔
بیزار ہو کر گری لال نے مکندی کو دونوں شانوں سے
پکڑ لیا اور زور زور سے جھنجھوڑتے ہوئے بولا: ’’مکندی، بات کیا ہے آخر؟‘‘
’’کچھ
نہیں‘‘ پہلے تو مکندی نے کہا اور پھر اِدھر اُدھر دیکھ کر اپنی کرسی گری لال کے
پاس سرکائی اور بولا ’’سن یار، ایک عجیب سی بات ہوئی‘‘ اور پھر وہ رُک گیا، جیسے
سوچ رہا ہو کہ اب بھی بتائے یا نہ بتائے۔
’’بڑا
کمینہ ہے، یار تو‘‘ گری نے کہا ’’ایسی بھی کیا بات ہے جو تو گری سے چھپائے گا؟‘‘
’’بتاتا
ہوں‘‘ مکندی راز داری کے انداز میں اپنا منھ گری لال کے کانوں کے پاس کرتے ہوئے
بولا، ’’وہ سونفیا…‘‘
’’ہاں
ہاں، سونفیا؟!‘‘
’’ہم
جتنا اسے برف کا تودہ سمجھ رہے تھے،اتنی ہی وہ آگ نکلی۔‘‘
’’سچ؟‘‘
اور گری لال کا چہرہ بھی تمتمانے لگا اور پھر اس نے حیران ہو کر کہا ’’کہاں، کیسے
ہوا یہ سب؟ اسے کیا شیلو اور تمھارے بارے میں پتہ چل گیا تھا؟‘‘
’’نہیں‘‘
مکندی نے جواب دیا ’’ہم تو اس کے کلب میں آنے سے پہلے ہی وہاں سے نکل کر دریا کے
کنارے چلے گئے تھے۔‘‘
’’پھر؟‘‘
’’پھر‘‘
مکندی نے کہا، ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ سونفیا کے رام ہو جانے کی کوئی بڑی
لمبی چوڑی وجہ بیان کرنے جا رہا ہے لیکن جبھی سامنے، برآمدے کی طرف اس کا ڈاشنڈ،
رکی، کوئی اجنبی بو پاتا، بھونکتا ہوا چلا آیا۔
’’رکی—رکی۔‘‘
مکندی نے پکارا،لیکن وہ گری کے پاس پہنچ کر اسے سونگھ چکا تھا۔ پھر مکندی کے پاس
آتے ہوئے اس نے اسے سونگھا، سر اُٹھا کر اس کے منھ کی طرف دیکھا اور دُم ہلا ہلا
کر وہ اس کے ہاتھ اور پانو چاٹنے لگا۔ مکندی نے مسکراتے ہوئے گری لال کی طرف دیکھا
اور پھر رکی کو اُٹھا کر اس کے بدن پہ ہاتھ پھیرنے، اس سے پیار کرنے لگا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment