صراف
ساٹھ کے تیس، نہیں یہ تو نہیں ہو سکتا
زرِ خالص کی انگوٹھی ہے ذرا غور سے
دیکھ
کسی پتھّر پہ رگڑ اِس کو کسوٹی پہ پرکھ
ہر طرح جانچ ہر انداز ہر اِک طَور سے
دیکھ
مجھ پہ روشن ہے کہ اِس جنسِ گراں مایہ
کو
میرے افلاس نے کم نرخ بنا رکھا ہے
دیکھ کر میری نگاہوں میں طلب کی شدّت
تو نے انصاف کو نیلام چڑھا رکھا ہے
جانتا ہوں تری دکاں کے یہ زرّیں زیور
یہ گلو بند یہ کنگن یہ طلائی پیسے
یہ زر و سیم کی اینٹوں سے لدی الماری
کسی شدّاد کا تابُوت دھرا ہو جیسے
کتنے مجبوروں نے بڑھتی ہوئی حاجت کے
لئے
کیسے حالات میں کس نرخ یہاں بیچ دیے
تیری میزاں کے یہ بے رحم سُنہرے پلڑے
ایک جلّاد کی تلوار رہے ہیں اب تک
گرسنہ آنکھوں کے کشکول، ہوس کے مقتل
ہر نئے خوں کے خریدار رہے ہیں اب تک
ساٹھ کے تیس نہیں، تیس کے پندرہ دے دے
اپنی مجبوری کا اظہار نہیں کر سکتا
آج اک تلخ ضرورت ہے مرے پیشِ نظر
میں کسی رنگ سے انکار نہیں کر سکتا
No comments:
Post a Comment