شوکت
تھانوی
پاکستان
کے اردو کے نامور مزاح نگار‘ شاعر اور صحافی جناب شوکت تھانوی کی تاریخ پیدائش 2
فروری 1904ء ہے۔
جناب شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا اور وہ بندرابن ضلع متھرا میں پیدا ہوئے تھے۔آبائی وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا اور اسی نسبت سے تھانوی کہلاتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک لکھنو میں مقیم رہے جہاں انہوں نے مزاح نگاری‘ شاعری اور صحافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑے۔ 1930ء میں نیرنگ خیال کے سالنامے میں ان کا مشہور مزاحیہ افسانہ ‘‘ سودیشی ریل‘‘ شائع ہوا جس کے بعد ان کا شمار اردو کے صف اول کے مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد جناب شوکت تھانوی پاکستان منتقل ہوگئے اور پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے جہاں وہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے مدیر مقرر ہوئے تھے۔روزنامہ جنگ میں ان کے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ اور پہاڑ تلے بھی قارئین میں بے حد مقبول تھے۔
جناب شوکت تھانوی کی تصانیف میں موج تبسم‘ بحر تبسم‘ دنیائے تبسم‘برق تبسم، سیلاب تبسم‘ سودیشی ریل‘ قاعدہ بے قاعدہ‘ نیلوفر‘ جوڑ توڑ‘ سنی سنائی‘ خدانخواستہ‘ بارخاطر ، ان کی خودنوشت سوانح ’’مابدولت‘‘ اور خاکوں کا مجموعہ شیش محل شامل ہیں۔
شوکت تھانوی4 مئی 19633ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور وہیں حضرت میاں میر کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
جناب شوکت تھانوی کا اصل نام محمد عمر تھا اور وہ بندرابن ضلع متھرا میں پیدا ہوئے تھے۔آبائی وطن تھانہ بھون ضلع مظفر نگر تھا اور اسی نسبت سے تھانوی کہلاتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک لکھنو میں مقیم رہے جہاں انہوں نے مزاح نگاری‘ شاعری اور صحافت کے میدانوں میں جھنڈے گاڑے۔ 1930ء میں نیرنگ خیال کے سالنامے میں ان کا مشہور مزاحیہ افسانہ ‘‘ سودیشی ریل‘‘ شائع ہوا جس کے بعد ان کا شمار اردو کے صف اول کے مزاح نگاروں میں ہونے لگا۔
قیام پاکستان کے بعد جناب شوکت تھانوی پاکستان منتقل ہوگئے اور پہلے کراچی اور پھر راولپنڈی میں مقیم ہوئے جہاں وہ روزنامہ جنگ راولپنڈی کے مدیر مقرر ہوئے تھے۔روزنامہ جنگ میں ان کے کالم ’’وغیرہ وغیرہ‘‘ اور پہاڑ تلے بھی قارئین میں بے حد مقبول تھے۔
جناب شوکت تھانوی کی تصانیف میں موج تبسم‘ بحر تبسم‘ دنیائے تبسم‘برق تبسم، سیلاب تبسم‘ سودیشی ریل‘ قاعدہ بے قاعدہ‘ نیلوفر‘ جوڑ توڑ‘ سنی سنائی‘ خدانخواستہ‘ بارخاطر ، ان کی خودنوشت سوانح ’’مابدولت‘‘ اور خاکوں کا مجموعہ شیش محل شامل ہیں۔
شوکت تھانوی4 مئی 19633ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور وہیں حضرت میاں میر کے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔
دھوکا
تھا نگاہوں کا مگر خوب تھا دھوکا
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی!!
مجھ کو تری نظروں میں محبت نظر آئی!!
No comments:
Post a Comment