سیّد
فخر الدین بَلّے نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے جیالوجی میں ماسٹر کرنے کے ساتھ
ادیب کامل کی سند امتیاز حاصل کی۔ سیّد فخر الدین بَلّے ماہنامہ ’’جھلک‘‘ علی گڑھ
کے بانی مدیر اعلیٰ ہونے کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے انگریزی رسالے ’’دی
یونین‘‘ کے ایڈیٹر بھی تھے۔ سائنس، ادب اور صحافت کے شعبوں میں اسی یونیورسٹی سے
انکے جوہر کھلنا شروع ہوئے۔ مختار مسعود علیگ کے یہ الفاظ کہ ’’سیّد فخر الدین
بَلّے ایسی ان گنت صلاحیتوں کی حامل شخصیت میری نظر سے نہیں گزری۔ ان سے مل لینے
کے بعد ہر کسی کو اپنے اندر ایک خاص توانائی کا احساس ہوتا اور وہ اپنے اندر علم و
ادب کی مہک محسوس کرنے لگتا۔ وہ میرا بے حد احترام کرتے اور میں ان کا نثر نگاری
ہو یا شاعری‘ مذہب ہو یا ادب اور سیاست ہو یا صحافت ہر لحاظ سے ان کا مطالعہ بڑا
وسیع ہے۔‘‘ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بالمقابل
کریمی بلڈنگ میں رہائش پذیر تھا اور یوں میں نے علی گڑھ یونیورسٹی اور فخر الدین
بَلّے کے زیر سایہ نشو و نما پائی۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کہتے ہیں کہ ’’سیّد
فخر الدین بَلّے ایک شخص کا نہیں بلکہ ایک تہذیبی ادارہ کا نام ہے اور انکے زرخیز
دماغ میں ایک کمپیوٹر نصب ہے جس میں حکمت الٰہی نے ان گنت اور بے حد و شمار علوم
فیڈ کر دیئے ہیں جس کا ظہور حسب ضرورت ہوتا رہتا ہے۔ ہم ان مظاہر کو دیکھتے ہیں
اور حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ وہ عالم ‘ ادیب‘ شاعر‘ نقاد‘ محقق اور صحافی ہیں اور بے
کراں علوم و فنون کے حامل ہیں لیکن بنیادی طور پر وہ ایک انسان ہیں۔ شریف‘ مہذب ‘
وضعدار‘ مخلص‘ خیر خواہ اور سراپا صداقت و محبت‘ اسی لئے انکی انسانی شخصیت پر
اوصاف و صفاتِ عالیہ کے تمام لباس خوبصورت لگتے ہیں۔ فخر الدین بَلّے اپنے بارے
میں ہمیشہ یہی کہتے تھے۔
سر اٹھا کر زمیں پر چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
پیڑپودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں نہ سہی
مگر ان کا ایک اور شعر بھی ہے جو رہ رہ کر یاد آتا اور تڑپاتا ہے :
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
جاوید قریشی بھی فخر الدین بَلّے کی خداداد فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ جب جاوید قریشی کو راولپنڈی آرٹس کونسل ایک غیر فعال ادارہ نظر آیا تو انہوں نے اسے فعال بنانے کیلئے سیّد فخر الدین بَلّے کا انتخاب کیا۔ جاوید احمد قریشی نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے بعد فخر الدین بَلّے کو ایک اور چیلنج دیا۔ یہ ملتان آرٹس کونسل کا چیلنج تھا۔ ملتان آرٹس کونسل کے سربراہ کا چارج سنبھالتے ہی فخر الدین بَلّے نے ایک تہلکہ مچا دیا اور فخر الدین بَلّے کی شہرت کی گونج قومی اور بین الاقوامی سطح پر سُنائی دینے لگی۔ مجسمہ سازی‘ نقاشی‘ مصوری‘ خطاطی‘ موسیقی و سنگ تراشی‘ دینی مجالس و ادبی محافل ‘ دریچۂ صناعی اور مختلف فنون سے تعلق رکھنے والوں کی قابل رشک ستائش کے علاوہ ملتان آرٹس کونسل میں ملک کا پہلا 25 روزہ جشن تمثیل کہ جس نے سٹیج کی دنیا سے وابستہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا، ان کا کارنامہ تھا۔ انہیں ’’مین آف دی سٹیج‘‘ کا گولڈ میڈل اور محسنِ فن کا خطاب بھی دیا گیا۔ خطاب تو انہیں ’’فخر ادب‘‘ کا بھی دیا گیا تھا۔ غالباً یہ 80ء کی دہائی تھی اور یہ تو اب سے چند برس پہلے کی بات ہے، جب راغب مُراد آبادی نے فرمایا تھا:
قوافی اب نہیں ہیں میرے پلے
مدد فرمائیں فخرالدین بَلّے
مگر برسوں پہلے علی گڑھ میں ہونے والے ایک مشاعرے میں مجروح سلطان پوری نے یہ شعر پڑھ کر حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی تھی :
وہی ہے فخرِ ادب اور شہنشاہ سخن
نام سے بَلّے کے یہ سارا شہر جانے جسے
پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے فخرالدین بَلّے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’مجھے فخر الدین بَلّے سے نیاز مندی کا اعزاز حاصل ہے اور کون ہے جو اردو ادب کیلئے فخرالدین بَلّے کی خدمات کا معترف نہ ہو۔ ان کی نثر کو بڑے بڑے ممتاز اور معروف ثنر نگار رشک کی نظر سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور انکی منفرد اور خوبصورت شعری تخلیقات کے سحر سے برسوں بھی آزاد ہونا مشکل ہے۔ میں خود کو فخر الدین بَلّے کی شاعری اور شخصیت کے مداحوں میں شمار کرتا ہوں۔‘‘سیّد فخر الدین بَلّے نے مولوی عبدالحق ‘ فراق گورکھپوری‘ تمنا بجنوری‘ پروفیسر ہادی حسن‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ پنڈت برج نارائن‘ رشید احمد صدیقی‘ مولانا حسرت موہانی‘ علامہ خیر بھوروی‘ علامہ انور صابری‘ مولانا حسین احمد مدنی‘ آل احمد سرور اور جوش ملیح آبادی ایسی ہستیوں کی قربت‘ صحبت میں تربیت پائی۔ ان کو ادبی محافل کی شان اور جان کہا جاتا تھا۔ تب ہی تو ایک ایسی محفل سخن میں جب جگر مُراد آبادی سے کلام عطا کرنے کی درخواست کی گئی کہ جس میں فخر الدین بَلّے موجود نہ تھے تو انہوں نے بس ایک ہی شعر پر اکتفا کیا :
کیا کوئی شعر پڑھے آج کہ بلے کے بغیر
کاٹنے دوڑتی ہے محفلِ اشعار مجھے
وہ ایک خوددار انسان تھے۔ وہ گریڈ 200 میں تھے کہ جب ریٹائر ہوئے مگر وہ اپنی کوئی چھت تک نہ بنا سکے۔ درحقیقت وہ ایک درویش تھے‘ تصوف کے حوالے سے ان کا بہت کام ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل‘ پیر حسام الدین راشدی اور ڈاکٹر وزیر آغا نے انہیں تصوف پر اتھارٹی قرار دیا۔ جون ایلیا نے انہیں ان الفاظ میں خراج پیش کیا ’’فخر الدین بَلّے تو جانِ جاناں ہیں۔ وہ یقیناً ایک خوبصورت اور معتبر شخصیت کے مالک ہیں۔ انکی نظم اور نثر معتبر ہے۔ فخر الدین بَلّے کی شخصیت تہذیبی ہے بلکہ ان کی شخصیت تہذیب اور معاشرے کے نمائندے جیسی ہے۔ فخر الدین بَلّے کی شخصیت کی طرح ان کی تخلیقات اور تخلیقات کی طرح شخصیت بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔‘‘ اشفاق احمد کے خیال میں ’’سیّد فخر الدین بَلّے شعر و ادب کا ہی نہیں بحر تصوف کا بھی فخر ہیں۔‘‘ ملتان کے تاریخی ثقافتی تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے سیّد فخر الدین بَلّے کی خواہش تھی کہ وہ یہاں کے ادب و ثقافت کیلئے ٹھوس کام کر جائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کے بقول ’’سیّد فخر الدین بلے کا یہ منصوبہ جامع اور ہمہ جہت تھا۔ وہ اس سرزمین کی تاریخ‘ تہذیب‘ تمدن‘ دین و تصوف‘ ادب اور آرٹ کے تمام ذخائر و خزائن کو محفوظ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کام کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ ملتان ہی میں انہوں نے اس غرض سے ایک تنظیم ’’قافلہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ قافلہ ان کے ساتھ سفر میں رہا۔ وہ لاہورگئے تو قافلے کے پڑاؤ داتا کی نگری میں ہونے لگے اور انکی گونج سرحد پار بھی سُنائی دی۔ احمد ندیم قاسمی شریک محفل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ فخرالدین بَلّے صاحب کی پُرکشش شخصیت کا اعجاز ہے کہ ادب دوست قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کے متمنی رہتے ہیں۔ وہ خود اپنے کلام سنانے سے گریزاں نظر آتے ہیں لیکن آنیوالے مہمانوں کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔‘‘ سید فخرالدین بَلّے نے سو سے زائد مطبوعات تالیف یا ترتیب دیں۔ جو مذہب و ادب ‘ ثقافت و سیاحت اور مختلف شخصیات اور موضوعات کے حوالے سے ہیں۔ ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ بلاشبہ سید فخرالدین بَلّے کا ایک تحقیقی اور تاریخی کارنامہ ہے۔
سر اٹھا کر زمیں پر چلتا ہوں
سر چھپانے کو گھر نہیں نہ سہی
پیڑپودوں کی کچھ کمی تو نہیں
ایک سوکھا شجر نہیں نہ سہی
مگر ان کا ایک اور شعر بھی ہے جو رہ رہ کر یاد آتا اور تڑپاتا ہے :
الفاظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود
جاوید قریشی بھی فخر الدین بَلّے کی خداداد فنی صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ جب جاوید قریشی کو راولپنڈی آرٹس کونسل ایک غیر فعال ادارہ نظر آیا تو انہوں نے اسے فعال بنانے کیلئے سیّد فخر الدین بَلّے کا انتخاب کیا۔ جاوید احمد قریشی نے راولپنڈی آرٹس کونسل کے بعد فخر الدین بَلّے کو ایک اور چیلنج دیا۔ یہ ملتان آرٹس کونسل کا چیلنج تھا۔ ملتان آرٹس کونسل کے سربراہ کا چارج سنبھالتے ہی فخر الدین بَلّے نے ایک تہلکہ مچا دیا اور فخر الدین بَلّے کی شہرت کی گونج قومی اور بین الاقوامی سطح پر سُنائی دینے لگی۔ مجسمہ سازی‘ نقاشی‘ مصوری‘ خطاطی‘ موسیقی و سنگ تراشی‘ دینی مجالس و ادبی محافل ‘ دریچۂ صناعی اور مختلف فنون سے تعلق رکھنے والوں کی قابل رشک ستائش کے علاوہ ملتان آرٹس کونسل میں ملک کا پہلا 25 روزہ جشن تمثیل کہ جس نے سٹیج کی دنیا سے وابستہ لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا، ان کا کارنامہ تھا۔ انہیں ’’مین آف دی سٹیج‘‘ کا گولڈ میڈل اور محسنِ فن کا خطاب بھی دیا گیا۔ خطاب تو انہیں ’’فخر ادب‘‘ کا بھی دیا گیا تھا۔ غالباً یہ 80ء کی دہائی تھی اور یہ تو اب سے چند برس پہلے کی بات ہے، جب راغب مُراد آبادی نے فرمایا تھا:
قوافی اب نہیں ہیں میرے پلے
مدد فرمائیں فخرالدین بَلّے
مگر برسوں پہلے علی گڑھ میں ہونے والے ایک مشاعرے میں مجروح سلطان پوری نے یہ شعر پڑھ کر حاضرین سے بے پناہ داد وصول کی تھی :
وہی ہے فخرِ ادب اور شہنشاہ سخن
نام سے بَلّے کے یہ سارا شہر جانے جسے
پروفیسر جگن ناتھ آزاد نے فخرالدین بَلّے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کیا ’’مجھے فخر الدین بَلّے سے نیاز مندی کا اعزاز حاصل ہے اور کون ہے جو اردو ادب کیلئے فخرالدین بَلّے کی خدمات کا معترف نہ ہو۔ ان کی نثر کو بڑے بڑے ممتاز اور معروف ثنر نگار رشک کی نظر سے دیکھتے اور پڑھتے ہیں اور انکی منفرد اور خوبصورت شعری تخلیقات کے سحر سے برسوں بھی آزاد ہونا مشکل ہے۔ میں خود کو فخر الدین بَلّے کی شاعری اور شخصیت کے مداحوں میں شمار کرتا ہوں۔‘‘سیّد فخر الدین بَلّے نے مولوی عبدالحق ‘ فراق گورکھپوری‘ تمنا بجنوری‘ پروفیسر ہادی حسن‘ ڈاکٹر ذاکر حسین‘ پنڈت برج نارائن‘ رشید احمد صدیقی‘ مولانا حسرت موہانی‘ علامہ خیر بھوروی‘ علامہ انور صابری‘ مولانا حسین احمد مدنی‘ آل احمد سرور اور جوش ملیح آبادی ایسی ہستیوں کی قربت‘ صحبت میں تربیت پائی۔ ان کو ادبی محافل کی شان اور جان کہا جاتا تھا۔ تب ہی تو ایک ایسی محفل سخن میں جب جگر مُراد آبادی سے کلام عطا کرنے کی درخواست کی گئی کہ جس میں فخر الدین بَلّے موجود نہ تھے تو انہوں نے بس ایک ہی شعر پر اکتفا کیا :
کیا کوئی شعر پڑھے آج کہ بلے کے بغیر
کاٹنے دوڑتی ہے محفلِ اشعار مجھے
وہ ایک خوددار انسان تھے۔ وہ گریڈ 200 میں تھے کہ جب ریٹائر ہوئے مگر وہ اپنی کوئی چھت تک نہ بنا سکے۔ درحقیقت وہ ایک درویش تھے‘ تصوف کے حوالے سے ان کا بہت کام ہے۔ ڈاکٹر این میری شمل‘ پیر حسام الدین راشدی اور ڈاکٹر وزیر آغا نے انہیں تصوف پر اتھارٹی قرار دیا۔ جون ایلیا نے انہیں ان الفاظ میں خراج پیش کیا ’’فخر الدین بَلّے تو جانِ جاناں ہیں۔ وہ یقیناً ایک خوبصورت اور معتبر شخصیت کے مالک ہیں۔ انکی نظم اور نثر معتبر ہے۔ فخر الدین بَلّے کی شخصیت تہذیبی ہے بلکہ ان کی شخصیت تہذیب اور معاشرے کے نمائندے جیسی ہے۔ فخر الدین بَلّے کی شخصیت کی طرح ان کی تخلیقات اور تخلیقات کی طرح شخصیت بھی متاثر کئے بغیر نہیں رہتی۔‘‘ اشفاق احمد کے خیال میں ’’سیّد فخر الدین بَلّے شعر و ادب کا ہی نہیں بحر تصوف کا بھی فخر ہیں۔‘‘ ملتان کے تاریخی ثقافتی تشخص کو اجاگر کرنے کیلئے سیّد فخر الدین بَلّے کی خواہش تھی کہ وہ یہاں کے ادب و ثقافت کیلئے ٹھوس کام کر جائیں۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کے بقول ’’سیّد فخر الدین بلے کا یہ منصوبہ جامع اور ہمہ جہت تھا۔ وہ اس سرزمین کی تاریخ‘ تہذیب‘ تمدن‘ دین و تصوف‘ ادب اور آرٹ کے تمام ذخائر و خزائن کو محفوظ کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کام کا آغاز بھی کر دیا تھا۔ ملتان ہی میں انہوں نے اس غرض سے ایک تنظیم ’’قافلہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ قافلہ ان کے ساتھ سفر میں رہا۔ وہ لاہورگئے تو قافلے کے پڑاؤ داتا کی نگری میں ہونے لگے اور انکی گونج سرحد پار بھی سُنائی دی۔ احمد ندیم قاسمی شریک محفل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ فخرالدین بَلّے صاحب کی پُرکشش شخصیت کا اعجاز ہے کہ ادب دوست قافلے کے پڑاؤ میں شرکت کے متمنی رہتے ہیں۔ وہ خود اپنے کلام سنانے سے گریزاں نظر آتے ہیں لیکن آنیوالے مہمانوں کی بھرپور پذیرائی کرتے ہیں۔‘‘ سید فخرالدین بَلّے نے سو سے زائد مطبوعات تالیف یا ترتیب دیں۔ جو مذہب و ادب ‘ ثقافت و سیاحت اور مختلف شخصیات اور موضوعات کے حوالے سے ہیں۔ ’’اسلام اور فنون لطیفہ‘‘ بلاشبہ سید فخرالدین بَلّے کا ایک تحقیقی اور تاریخی کارنامہ ہے۔
ہے
آب آب موج بِپھرنے کے باوجُود
سید فخرالدین بلے علیگ
سید فخرالدین بلے علیگ
دُنیا
سِمٹ رہی ہے بِکھیرنے کے باوجُود
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں پُھول نِکھرنے کے باوجُود
زیرِ قدم ہے چاند، سِتارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اُترنے کے باوجُود
طوُفان میں ڈُوب کر یہ ہُوا مجھ پہ مُنکشف
پانی تھی صِرف، موج بِپھرنے کے باوجُود
میں اُس مقام پر تو نہیں آگیا کہِیں
ہوگی نہ صُبح رات گُزرنے کے باوجُود
الفاظ و صوت و رنج و تصوّر کے رُوپ میں
زِندہ ہیں لوگ آج بھی، مرنے کے باوجُود
اِبہامِ آگہی سے میں اپنے وجُود کا
اِقرار کر رہا ہُوں مُکرنے کے باوجُود
(سید فخرالدین بلے علیگ)
راہِ فنا پہ لوگ سدا گامزن رہے
ہر ہر نفَس پہ موت سے ڈرنے کے باوجُود
اِس بحرِ کائِنات میں ہر کشتیِ انا
غرقاب ہوگئی ہے اُبھرنے کے باوجُود
شاید پڑی ہے رات بھی سارے چمن پہ اوس
بھیگے ہُوئے ہیں پُھول نِکھرنے کے باوجُود
زیرِ قدم ہے چاند، سِتارے ہیں گردِ راہ
دھرتی پہ آسماں سے اُترنے کے باوجُود
طوُفان میں ڈُوب کر یہ ہُوا مجھ پہ مُنکشف
پانی تھی صِرف، موج بِپھرنے کے باوجُود
میں اُس مقام پر تو نہیں آگیا کہِیں
ہوگی نہ صُبح رات گُزرنے کے باوجُود
الفاظ و صوت و رنج و تصوّر کے رُوپ میں
زِندہ ہیں لوگ آج بھی، مرنے کے باوجُود
اِبہامِ آگہی سے میں اپنے وجُود کا
اِقرار کر رہا ہُوں مُکرنے کے باوجُود
(سید فخرالدین بلے علیگ)
No comments:
Post a Comment