کہوں کیا آرزوےٓ بیدلی مجھ کو کہاں تک ہے
مرے بازار کی رونق ہی سودائے زیاں تک ہے
حباب آسا ، سرِ موجِ نفس باندھا ہے محمل کو
ذرا دیکھ اے شرر ! ذوقِ فنا مجھ کو کہاں تک ہے
وہی اک شعلہ ہے ، تربت بھی ہے
اور شمعِ تربت بھی
مزا مرنے کا کچھ پروانہٓ آتش
بجاں تک ہے
نہ سیکھی تو نے ، مرغِ رنگِ گل
سے ، رمزِ آزادی
یہ قیدِ بوستاں ، بلبل ! خیالِ
آشیاں تک ہے
وہ میکش ہوں فروغِ مے سے خود
گلزار بن جاؤں
ہوائے گل ، فراقِ ساقیِ
نامہرباں تک ہے
چمن افروز ہے صیاّد میری
خوشنوائی تک
رہی بجلی کی بے تابی ، سو میرے
آشیاں تک ہے
بنائیں چارہ گر نے دیدہٓ حیراں
کی زنجیریں
نظر آسا ، مری وحشت میں بے
تابی یہاں تک ہے
میں خارِ خشک پہلو ، شعلہٓ
گلخن کے قابل ہوں
پڑے رہنا مرا گلشن میں رحمِ
باغباں تک ہے
وہ مشتِ خاک ہوں ، فیضِ
پریشانی سے صحرا ہوں
نہ پوچھو میری وسعت کی، زمیں
سے آسماں تک ہے
مثالِ عکس ، بے تارِ نفس ہے
زندگی میری
تری آسیب کاری ، اے اجل ،
اقلیمِ جاں تک ہے
زباں تک عقدہٓ تبخالہ بن کر رہ
گیا مطلب
اثر ، مجھ دل جلے کی بستہ کاری
کا یہاں تک ہے
جرس ہوں، نالہ خوابیدہ ہے میرے
ہر رگ و پے میں
یہ خاموشی مری وقتِ رحیلِ
کارواں تک ہے
سکونِ دل سے سامانِ کشودِ کار
پیدا کر
کہ عقدہٓ خاطرِ گرداب کا آبِ
رواں تک ہے
نہیں منّت پزیر چشم ، رونا
شمعِ سوزاں کا
سمجھ غافل ! گدازِ دل میں
آزادی کہاں تک ہے
چمن زارِ محبّت میں خموشی موت
ہے بلبل
یہاں کی زندگی پابندیِ رسمِ
فغاں تک ہے
بھلا اے گل ! کبھی اس رمز کو
تو نے بھی سمجھا ہے
تری شبنم فریبی ، کیوں بہارِ
بوستاں تک ہے
جوانی ہے تو ذوقِ دید بھی، لطف
تمنّا بھی
ہمارے گھر کی آبادی قیامِ
میہماں تک ہے
زمانے بھر میں رسوا ہوں مگر اے
وائے نادانی
سمجھتا ہوں کہ میرا عشق میرے
رازداں تک ہے
یہ ہے اقبالؔ ! فیضِ یادِ نامِ
مرتضٰی جس سے
نگاہِ فکر میں ، خلوت سرائے لا
مکاں تک ہے
کتاب ۔ ابتدائی کلام اقبالؔ ۔
صفحہ ۲۲۳
بہ ترتیب مہ و سال
ڈاکٹر گیان چند ۔
اکتوبر ۱۹۰۳ء
خواشی ۔۔۔ یہ غزل سب سے پہلے مخزن اکتوبر ۱۹۰۳ء میں
شائع ہوئی
No comments:
Post a Comment