عطاء الحق قاسمی پاکستان میں ایک طرح دار ادیب، سفرنامہ نگار اور مزاحیہ کالم نگار ہیں۔ وہ ایک طویل عرصے سے روزنامہ جنگ میں لکھ رہے ہیں۔ وہ یکم فروری 1943ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ انہیں ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستانی سفارت خانوں میں بطور سفیر فرائض سر انجام دینے کا اعزاز حاصل ہے۔ اب ان کا ایک بیٹا یاسر پیر زادہ بھی اردو کا لکھاری ہے۔
......
آئے ہیں لوگ رات کی دہلیز پھاند کر
ان کے لیے نوید سحر ہونی چاہیئے
.......
دلوں سے خوف نکلتا نہیں عذابوں کا
زمیں نے اوڑھ لیے سر پر آسماں پھر سے
......
گم ہوا جاتا ہے کوئی منزلوں کی گرد میں
زندگی بھر کی مسافت رائیگاں ہونے کو ہے
......
جس کی خاطر میں بھلا بیٹھا تھا اپنے آپ کو
اب اسی کے بھول جانے کا ہنر بھی دیکھنا
......
لگتا نہیں کہ اس سے مراسم بحال ہوں
میں کیا کروں کہ تھوڑا سا پاگل تو میں بھی ہوں
.......
اسے اب بھول جانے کا ارادہ کر لیا ہے
بھروسہ غالباً خود پر زیادہ کر لیا ہے
وہ ایک شخص کہ منزل بھی راستا بھی ہے
وہی دعا بھی وہی حاصل دعا بھی ہے
.......
یہ کس عذاب میں اس نے پھنسا دیا مجھ کو
کہ اس کا دھیان کوئی کام کرنے دیتا نہیں
وہ
گرد ہے کہ وقت سے اوجھل تو میں بھی ہوں
پھر بھی غبار جیسا کوئی پل تو میں بھی ہوں
پھر بھی غبار جیسا کوئی پل تو میں بھی ہوں
خواہش کی وحشتوں کا یہ جنگل ہے پر خطر
مجھ سے بھی احتیاط کہ جنگل تو میں بھی ہوں
لگتا نہیں کہ اس سے مراسم بحال ہوں
میں کیا کروں کہ تھوڑا سا پاگل تو میں بھی ہوں
وہ میرے دل کے گوشے میں موجود ہے کہیں
اور اس کے دل میں تھوڑی سی ہلچل تو میں بھی ہوں
نکلے ہو قطرہ قطرہ محبت تلاشنے
دیکھو ادھر کہ پیار کی چھاگل تو میں بھی ہوں
کیسے اسے نکالوں میں زندان ذات سے
زندان ذات ہی میں مقفل تو میں بھی ہوں
ماضی کے آئنے میں عطاؔ کوئی خوش ادا
شکوہ کناں تھا کہتا تھا سانول تو میں بھی ہوں
No comments:
Post a Comment