گھٹی گھٹی
ہی سہی، میری چاہ لے لینا
سفر طویل ہے، کچھ زاد راہ لے لینا
میں بے ثمر
ہی سہی پھر بھی سایہ دار تو ہوں
کڑی ہو دھوپ تو مجھ میں پناہ لے لینا
ابھی تو
ساتھ چلو، ہاں!جہاں میں رک جاؤں
تم اس مقام سے پھر اپنی راہ لے لینا
کسی مقام
پہ ممکن ہے کام آ جائے
ہمارے بیچ جو تھی رسم و راہ، لے لینا
وہ کم سواد
سہی پھر بھی یہ نہیں آساں
غنیم- دہر کے سر سے کلاہ لے لینا
یہی بہت ہے
کہ اس دور- ابتلا میں تقی
کسی کا میری خبر گاہ گاہ لے لینا
(یوسف تقی(
No comments:
Post a Comment