ق۔ کی
کہاوتیں
( ۱) قاضی دُبلے کیوں، شہر کے اندیشے
سے :
قاضی
ٔ شہر سارے شہر کی ذمہ داری سے فکر مند و پریشان رہتا ہے۔ اسی مناسبت سے جس
شخص کو اہم ذمہ داریاں دی جائیں وہ عموماً پریشان و فکر مند رہتا ہے
کہ کہیں کام بگڑ نہ جائے اور اس کے نام پر دھبہ آئے۔
( ۲ ) قاضی کے گھر کے چوہے بھی سیانے
:
چالاک آدمی کے گھر کا
چھوٹے سے چھوٹا شخص بھی چالاک ہوتا ہے۔
( ۳ ) قافیہ تنگ ہے :
یعنی
بات نہیں بن رہی ہے یا سوجھ نہیں رہی ہے۔ شاعر کو نئے قافیے نہ سوجھیں
تو اس کو قافیہ تنگ ہونا کہتے ہیں۔
(۴) قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے
ہونا :
یعنی
اتنا بوڑھا ہونا کہ موت بہت قریب ہو۔ اگر کوئی شخص بڑھاپے میں بھی بری
عادتوں سے باز نہ آئے تو یہ کہاوت طنزاً اور تنبیہ کے طور پر بولی جاتی ہے۔
(۵) قبر پر قبر نہیں بنتی ہے
:
یعنی قرض لے کر اس پر مزید قرض نہیں ملتا
ہے کیونکہ قرض خواہ مقروض کی حالت سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔
( ۶ )
قبر کے مردے اُکھاڑنا :
پرانے قضئے اور جھگڑے
نکال کر لانا اور فساد کی صورت پیدا کرنا۔
( ۷ )
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا :
یعنی
کسی شخص سے ضرورت سے زیادہ ملنا ملانا ہو تو بہت جلد اس تعلق میں سرد مہری
پیدا ہو جاتی ہے۔ مثلاًکسی کے گھر ملاقات کی غرض سے روزانہ چکر لگایا جائے تو جلد
ہی اُس دوست کے دل سے آنے والے کی قدر و قیمت کم ہو جاتی ہے۔کہاوت میں تنبیہ
ہے کہ آپس کے تعلقات میں بھی میانہ روی ہونی چاہئے۔
No comments:
Post a Comment