آہ سحر نے
سوزش دل کو مٹا دیا
اس باؤ نے
ہمیں تو دیا سا بجھا دیا
سمجھی نہ
باد صبح کہ آ کر اٹھا دیا
اس فتنۂ
زمانہ کو ناحق جگا دیا
پوشیدہ راز
عشق چلا جائے تھا سو آج
بے طاقتی نے
دل کی وہ پردہ اٹھا دیا
اس موج خیز
دہر میں ہم کو قضا نے آہ
پانی کے
بلبلے کی طرح سے مٹا دیا
تھی لاگ اس
کی تیغ کو ہم سے سو عشق نے
دونوں کو
معرکے میں گلے سے ملا دیا
سب شور ما و
من کو لیے سر میں مر گئے
یاروں کو اس
فسانے نے آخر سلا دیا
آوارگان عشق
کا پوچھا جو میں نشاں
مشت غبار لے
کے صبا نے اڑا دیا
اجزا بدن کے
جتنے تھے پانی ہو بہ گئے
No comments:
Post a Comment