آخر گداز
عشق نے ہم کو بہا دیا
کیا کچھ نہ
تھا ازل میں نہ طالع جو تھے درست
ہم کو دل
شکستہ قضا نے دلا دیا
گویا محاسبہ
مجھے دینا تھا عشق کا
اس طور دل
سی چیز کو میں نے لگا دیا
مدت رہے گی
یاد ترے چہرے کی جھلک
جلوے کو جس
نے ماہ کے جی سے بھلا دیا
ہم نے تو
سادگی سے کیا جی کا بھی زیاں
دل جو دیا
تھا سو تو دیا سر جدا دیا
بوئے کباب
سوختہ آئی دماغ میں
شاید جگر
بھی آتش غم نے جلا دیا
تکلیف درد
دل کی عبث ہم نشیں نے کی
درد سخن نے
میرے سبھوں کو رلا دیا
ان نے تو
تیغ کھینچی تھی پر جی چلا کے میرؔ
ہم نے بھی
ایک دم میں تماشا دکھا دیا
No comments:
Post a Comment