آدھا
سفر ہم نے خیالوں میں کیا
پھر وہ
بولا
جال کو
دوست سمجھو
اور
بادبان کا خواب دیکھو
اس بات
پر لڑکی کو ہنسی آئی
اور
ہنسی میں زپ سرکنے کی آواز گم ہو گئی
لائٹ
ہاؤس اعلان کر رہا تھا
وہ
ایبسکو نڈرز ہیں
اس کے
چہرے سے چمگا دڑ کا سایہ اُڑا
اور
افسروں کی گھنٹیاں بجنے لگیں
کوری
ڈور میں قدم تیز ہو گئے
موٹے
جوتوں کے شور میں
وہ لائٹ
ہاؤس کا پیغام سنتارہا
اور
سوچتا رہا میں کون ہوں
سوچنا
پہلے ہے یا ہونا پہلے ہے
پھر
ٹیلی فون کے تاروں میں
الجھی
ہوئی پتنگیں پھڑ پھڑائیں
جال نے
بادبان سے کچھ کہا
لڑکی
لہروں پر ہاتھ پھیرنے لگی
ایک لہر
میں بھی بناؤں گی
اپنے
نام کی لہر بنا دو
اور
لانچ سے کود جاؤ
بندر
گاہ کی میز پر ڈاک جمع ہو رہی ہے
ہوا کی
انگلیاں ٹائپ رائٹر پر دھُن بجا تی ہیں
جال اور
بادبان باتیں کیے جا تے ہیں
لڑکی
روتی ہے
وہ لہر
کہاں گئی جو زپ کے ساتھ کھلی تھی
وہاں
ہنس کی جوڑی تھی
ان کے
بچّے بدلیوں کے آنچل کھینچ رہے تھے
اور
جنگل کا پہلا موسم گہرا ہو رہا تھا
اور آگ
چُرانے والے دیودار کی شاخوں سے جھانک رہے تھے
No comments:
Post a Comment