اسفنج
کی اندھی سیڑھیوں پر
مجھے اس
جنریٹر کی تلاش ہے
جو
سیاروں کو بجلی سپلائی کرتا ہے
اور جس
کے کرنٹ سے میرے سیل روشن ہوتے ہیں
میں نے
ایک آدمی کے ماتھے پر
غرور
سجادگی کے گلاب دیکھے
وہاں
چھوٹی اینٹوں کی دیوار پر اسم سیادت چمکتا ہے
پھر ہوا
نے ٹین کی چادریں گردنوں پر پھینکیں
مائیں
نیند سے لڑنے لگیں
باپ
آنگن کو پرواز سے روکتے رہے
اور
زمین کے نیچے مایا کی دیگیں سرکتی رہیں
بکریوں
نے شور کیا
پہلوٹی
والا دو
پہلوٹی
والا دو
وہ
دیکھو اسفنج کی اندھی سیڑھیوں پر
ناخن کے
بعد ناخن
ہزار
پایہ سفر میں ہے
سفر ۔
سفر ۔ سفر
گھومتے
ہوئے پہئیے
ٹوٹتے
ہوئے بریک
ایک انچ
میں ہزار انچ غبار
اور
اسکول یونی فارم
ہم گئیر
بدلنے سے پہلے ہی
ڈینجر
زون میں کیوں داخل ہو جاتے ہیں
بوڑھا
ڈرائیور سوچتا ہے
رانوں
کے کراس پر چہرے کی ہڈی کس خطرے کا نشان ہے
No comments:
Post a Comment