آٹھواں سورج
اس ٹاور کے ماتھے سے ٹپکتا ہے
جو بے نمبر کی بس کا ٹرمنس ہے
جہاں موٹی سی عورت کی بہت موٹی سی پنڈلی
چاہتی ہے
بھوری مٹی کی گھڑی ٹاور سے مل جائے
مگر ہر بینک اپنی انتہا پر ملگجے گودام میں تبدیل
ہوتا ہے
وہاں راتوں کو
گنّے بیلنے کی ریڑھیاں پُرزے بدلتی ہیں
اور ان کی بے لباسی کا تماشا واش بیسن دیکھتا ہے
دیکھتا ہے اور کسی پچھلے جنم میں جا نکلتا ہے
کسی پچھلے جنم کے سرمئی مندر کی سیڑھی پر سمندر
پاؤں رکھتا ہے
تو کالی دیوداسی اپنی چوٹی کھول دیتی ہے
میرا عزرائیل کہتا ہے
کہ یہ ریلنگ میری خود کشی کی ارج سے کمزور ہے
ہمیں اس بانسری کی آرزو ہے
جو کسی رتھ بان کی سب سے
بڑی پہچان ہے
بانسری ملتی نہیں
پیٹرول کے پائپ نظر آتے ہیں
جن کے دائروں میں
فاصلے اور وقت مل کر پُل بناتے ہیں
اسی پل پر تو روحِ عصر تصویر یں بناتی ہے
روحِ عصر کی آوارہ تصویریں
مشینی شہر کے سمبل
جو تمبولا چلاتے ہیں
یہ گہرے پانیوں سے بھاگنے والی
بڑی چھوٹی سنہری مچھلیاں
اس ڈور کے کانٹے سے اندھی ہیں
جس کا سِرا
اس وقت میرے ہاتھ میں گُم ہے
گم اندھیرے میں عمارت جگمگاتی ہے
درختوں کی طرح ہر سال اک منزل بڑھاتی ہے
چلو کھڑکی سے دیکھیں
کس طرح سرکش جہازوں کے ہیولے
کیکڑوں کا روپ اپناتے ہیں
پھر روپوش ہو جاتے ہیں
اس شپ یارڈ کے پیچھے
جہاں اک باؤلا انجن
خیالی بوگیوں کو شنٹ کرتا ہے
ان کڑیل کرینوں کے علاقے میں
جو باٹل پام کی مانند خوش قامت ہیں
اور موٹی سی عورت کی بہت موٹی سی پنڈلی سے زیادہ
سروقد ہیں
آج قربانی کی شب ہے
اور اک بینر پہ لکھا ہے
کہ ہم حاضر ہیں
رانیں روسٹ کرنے کے لیے
No comments:
Post a Comment