غلام ابن سلطا ن
منشی
گھسیٹا خان بھی عجیب شخص تھا،خود ستائی اور خود نمائی اس کی گھُٹی میں پڑی
تھی۔واجبی سی تعلیم کے باوجود یہ خود کو عصرِ حاضر سب سے بڑا مورخ اور فلسفی
سمجھتا تھا۔ اپنی زندگی کی ستر خزائیں دیکھنے کے بعد بھی اس کی رجائیت پسندی کا یہ
حال تھا کہ اس کی زندگی کے دن موہوم بہاروں کے روگ میں کٹنے لگے اوراس کا دل و جگر
کرچیوں میں بٹنے لگے۔جب کوئی اس کندۂ نا تراش کو اس کے جنسی جنون،منشیات کے
نشے کی قبیح عادت،چنڈو خانوں اور قحبہ خانوں کے گورکھ دھندے سے تائب ہونے کا مشورہ
دیتا، تو یہ نا ہنجار عف عف کر کے کاٹنے کو دوڑتا تھا۔ سینگ کٹا کر بچھڑوں میں
شامل ہو جاتا،پریوں کا اکھاڑہ سجا کر اس میں راجا اِندر بن کر ہنہناتا،اپنی جہالت
پر اِتراتا اور ڈھٹائی سے ہر طر ف دندناتا پھرتا تھا۔اس سٹھیائے ہوئے بُڈھے کھوسٹ
کی ہیئتِ کذائی دیکھ کر ہنسی ضبط کرنا مشکل تھا۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے باعث یہ
خبطی شامتِ اعمال اور گردشِ حالات کی زد میں اس طرح آیا کہ اس کے سب کس بل نکل
گئے۔اس کے باوجود یہ چکنا گھڑا بے حسی اور بے غیرتی کی تصویر بنا حسن و رومان اور
عشق و جنون کی خا ر زار راہوں پر خوار و زبوں گھومتا،نشے میں دھت یہ متفنی ہر حسین
چہرے کو دیکھ کر جھُومتا اور ضعفِ پیری کے باوجود سیرگاہوں اور چرا گاہوں میں
ٹانگیں گھسیٹتا پھرتا تھا اور دوسروں کے معاملات میں ٹانگ اڑانے کا کوئی موقع ہاتھ
سے جانے نہ دیتا تھا۔ شریف لوگوں کو فرضی مقدمات میں گھسیٹنا اس متفنی کا وتیرہ
تھا، اسی وجہ سے اس ننگِ اسلاف کا نام منشی گھسیٹا خان پڑ گیا۔ مغز سے یکسر خالی
گنجی کھو پڑی پر خچر کی دُم کے لمبے بالوں سے تیار کی ہوئی خود ساختہ وِگ پہنے،
موٹے سفید شیشیوں کی نظر کی عینک اپنی کرگسی آنکھوں اور کٹی ناک پرسجائے، ہاتھ کی
انگلیوں میں عقیق کی انگوٹھیاں ٹھونسے، یہ زمین کا بوجھ کسی مر ے ہوئے منحوس گورے
کا کُوڑے کے ڈھیر پر پھینکا ہوا لنڈے کا بد رنگ،بد وضع اور بوسیدہ سُوٹ اپنے بے حس
تن پر کس کر نکلتا۔بھرے بازار کی لعنت و ملامت اور دو طرفہ ندامت اس کے ہم رکاب
رہتی۔اس کے ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز عادی دروغ گو زادو لُدھیک اور منشیات کا بد
نام سمگلراکرو بھٹیارا بھی اس کے ساتھ ہوتے۔ گرمیوں کے موسم میں سہ پہر کے وقت یہ
تینوں سٹھیائے ہوئے گھٹیا عیاش اور بدنام اُچکے ایامِ گُزشتہ کی کتاب کی ورق
گردانی اور لُٹی محفلوں کی نوحہ خوانی کے لیے اکٹھے ہوتے۔تین اُچکوں کی یہ کہانی
ایک بلائے نا گہانی کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ عام طور پر منشی گھسیٹا خان ہذیان
بکتا لیکن کبھی کبھی یہ سارق شاعری کو بھی منہ مار لیتا تھا یہی وجہ ہے کی پاپ
بیتی میں اس متشاعر کی جسارت سارقانہ کے بھونڈے انداز بھی اس کا منہ چڑا رہے
ہیں۔زادو لُدھیک نے چمگادڑ کی طرح سورج سے منہ چھپا کر کان کھُجاتے ہوئے اور دُم
ہلاتے ہوئے کفن پھاڑ کر کالی زبان ہلائی:
راوی کے کنارے پر
وقت گزارتے ہیں
یادو ں کے سہارے پر
اکرو بھٹیارا اُلو کی طرح آنکھیں گھُماتا ہوا منشی
گھسیٹا خان سے مخاطب ہو کر ہرزہ سرا ہوا
’’تمھاری
رائیگاں زیست کی ورق ورق داستاں کو آلام روزگار کے مہیب بگولوں نے جس طرح گندے
نالوں میں بکھیرا ہے وہ نشانِ عبرت ہے۔آج ان رازوں سے نقاب اُٹھائیں جن کے باعث
تمھاری زندگی بے ثمر ہو کر رہ گئی۔ِِ‘‘
منشی گھسیٹا خان نے پاؤں گھسیٹتے ہوئے اور سر
پیٹتے ہوئے کہا:
’’ سہہ
رہا تھا غمِ نہاں کا عذاب
سر پہ وہ تھوپ کر خضاب آئے
آؤ میری نادانی کی کہانی منہ زبانی میری زبانی
سُنو اور اسے سن کر ارد گرد کی سُن گُن لو اور سر دھُنو۔ تین سو سال پہلے کی بات
ہے لاہور میں دریائے راوی کے دونوں کناروں پر تین میلوں پر محیط ایک وسیع باغ
تھا۔اس باغ میں اثمار کے بُور لدے چھتنار، ہزارہا شجرِ سایہ دار سروو صنوبر،سنبل و
ریحان موجو د تھے۔ اس میں کثرت سے اُگے بادام کے پودوں کی وجہ سے اس کا نام بادامی
باغ پڑ گیا۔اس مقام پر نازک اندام اور ان کے نمک حرام ہوس پرست آشنا مے گلفام سے
سیراب ہوتے۔چُلّو میں اُلّو بن جانے والے یہاں اپنا اُلّو سیدھا کرنے کی غرض سے
آتے مگر ان کی کج روی کے باعث سب تدبیریں اُلٹی ہو جاتیں۔جب ان کی قسمت اور تقدیر
پھُوٹتی تو ان میں پھُوٹ پڑ جاتی اور یہ پھُوٹ پھُوٹ کر رونے لگتے۔جب میں جوان تھا
تو یہی جگہ میری گزرگاہِ خیال بن گئی اور یہیں میری زندگی کے ساتھ ایسا کِھلواڑ ہوا
کہ حسین تتلیوں کی اکھاڑ پچھاڑ سے میری زندگی وبال بن گئی۔ ‘‘
’’منشی
گھسیٹا خان! مجھے تو یوں لگتا ہے کہ تمھاری اِن دل خراش یادوں ہی کی وجہ سے
تمھیں خارش کا متعدی عارضہ لا حق ہو گیا ہے۔‘‘زادو لُدھیک نے اپنی کٹی ناک پر
اُنگلی رکھ کر کہا ’’تمھاری یادیں خزاں رسیدہ شجر کے مانند ہیں جسے سمے کی دیمک
چُپکے چُپکے کھاتی رہی اور پُورا تنا ہی کھوکھلا ہو گیا۔‘‘
’’مردہ
جب بھی بولتا ہے وہ کفن پھاڑ کر ہی بو لتا ہے۔‘‘منشی گھسیٹا خان بولا ’’میر ا تن
کھوکھلا ہوتا چلا گیا، من کی ترنگ ختم ہو گئی،میں بو کھلا گیا اور میرے تن بدن میں
آگ لگ جاتی۔ میں اپنے دل و جگر میں بھڑکنے والی یہ آگ برف میں لگی مے کی صراحی
اپنے حلق میں اُنڈیل کر بجھاتا۔گھر پھونک کر تماشا دیکھنا میرا معمول اور شوقِ
فضول بن گیا۔‘‘
’’ واہی تباہی بکنے والے شخص کی واہیات واردات کو اس کی زندگی کے معمولات کی
ہفوات کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے؟‘‘ دھن کا دیوانہ اکر و بھٹیارا اپنا بھاڑ
جیسا دہن کھول کر مجنونانہ انداز میں کہنے لگا’’سٹھیائے ہوئے آدمی اور خزاں رسیدہ
درخت میں کوئی فرق نہیں۔جس طرح بادِ سموم کے باعث درخت کی کومل کلیاں،پھُول اور
ثمرِ نورس رزقِ خاک بن جاتے ہیں،اسی طرح ہر مخبوط الحواس جنسی جنونی درندے کی کور
مغزی،بے بصری،ذہنی افلاس کے باعث اس کی زندگی وقفِ یاس ہو جاتی ہے۔جب کسی درخت پر
بُرا وقت آتا ہے تو طائران خوش نوا درخت پر موجود اپنے آشیانوں کو چھوڑ کر لمبی
اُڑان بھر جاتے ہیں۔اسی طرح حسن و عشق اور تقدیر کا مارا جب حالات کی زد پر آتا ہے
تو اسے آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا ہے۔اس کے سب محبوب اپنی اپنی راہ لیتے ہیں
اور وہ اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ جاتا ہے۔‘‘
’’اب
مجھے اپنی داستان سنانے دو گے اور کچھ میری طرف بھی دھیا ن دو گے یا یوں ہی جی کا
زیاں کر کے اپنے ہذیان اور خلجان سے مجھے اپنے وجود سے بد گُمان کرو گے۔‘‘ منشی
گھسیٹا خان نے اپنے لنڈے کے کوٹ کی جیب سے بائیسیکل کا ایک زنگ آلود پیچ نکال کر
اپنے عفونت زدہ منہ میں ڈال کر کہا’’ میں نے بہت کوشش کی لیکن کہیں سے تاب نہ لا
سکا اگر تم نے میری بات پر توجہ نہ دی تو میں یہ پیچ کھا لوں گا۔‘‘
’’بس
بہت ہو چُکی!اب تمھیں نہ تو پیچ کھانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی تاب لانا تمھارے بس
میں ہے۔‘‘زادو لُدھیک خارش زدہ باؤلے سگِ آوارہ کی طرح غُرّایا ’’تم نے حبس کا جو
ماحول بنایا،اس نے زندگی کی سبھی رُتیں بے ثمر کر دیں۔میری طرح تمھارے جسم سے بھی
عفونت اور سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے ہیں۔ہم تینوں کی منزل خارزار زیست میں آبلہ پا مارے
مارے پھرنا ہے جہاں بے شمار خارِ مغیلاں اپنی نوک کو تیز کیے ہماری راہ میں بچھے
ہیں۔اس صحرا میں حنظل،دھتورا،تمباکو،پوست،بھنگ،اکڑا،تھوہر اور پوہلی کے سوا کچھ
بھی تو نہیں۔تمھاری ہرزہ سرائی سُن کر کون ہے جو تمھاری مدح سرائی کرے ؟ میری طرح
تمھاری کھوپڑی بھی مغز سے خالی ہے تمھارا سب کر و فر جعلی ہے،تیری زبان کالی ہے
اور تو محض شیر قالی ہے۔تجھے باتیں بنانے کے سوا کچھ نہیں آتا اور تمھاری بنائی
ہوئی باتیں سننے والے کے دل،دماغ اور روح کو شدید کرب،اذیت اور ذہنی دباؤ کا شکار
کر دیتی ہیں۔چلو چھوڑو اب جو کہنا ہے وہ کہو اور دوستو اس کے ستم سہو۔‘‘
منشی گھسیٹا خان بولا ’’ماضی کی یادیں میرے لیے
پیرِ تسمہ پا ثابت ہوئی ہیں۔ میں نے منشیات فروشی،قحبہ خانے اور چنڈو خانے کے
کاروبار سے جو کالا دھن کمایا،اُسی نے میرا منہ کالا کر دیا۔میری تجوری میں گنجِ
قارون جمع ہو گیا۔میں نے جوں ہی سر اُٹھایا تو پری چہرہ لوگوں نے مجھے سبزۂ نو
دمیدہ کے مانند پامال کر دیا اب تم دیکھ رہے ہو کہ میری کھو پڑی پر صرف گنج رہ گیا
ہے اور قارون حسن و عشق کی یلغار اور حسیناؤں کی کفش اندازی کی بھر مار میں کہیں
گُم ہو چُکا ہے۔ میری دولت پر گلچھرے اُڑانے والے سب طوطے اُڑ گئے۔ان کی
طوطا چشمی دیکھ کر میرے ہاتھوں کے طوطے بھی اُڑ گئے۔راتوں کے پچھلے پہر میں
تنہائیوں کا زہر پی کر اور تارے گِن کر وقت گزارنا میرا معمول بن گیا۔
’’اتنی
تباہی،روسیاہی اور جگ ہنسائی کے بعد بھی تم نے عقل کے ناخن نہیں لیے۔‘‘زادو لُدھیک
نے کہا’’ عام طور پر تمھاری ہر بات ہفوات ہوتی ہے لیکن یہ بات خوب ہے کہ تمھارے
پاس گنجِ قارون تھا لیکن قارون تو حسن و جمال پر قربان ہو گیا اب صرف کھو پڑی پر
گنج ہی رہ گیا ہے۔یہ گنج حسینوں کی تڑ تڑ پیزاروں کا عطیہ ہے۔‘‘
’’ یہ
مُو رکھ منشی گھسیٹا خان عقل کے ناخن کیسے لیتا ؟‘‘ اکر و بھٹیارا بولا ’’ عاشقی
کی کفش اندازی سے آرزوئیں مات کھا کر رہ جاتی ہیں۔سب لوگ یہی دعا کرتے تھے کہ خدا
گنجے کو ناخن نہ دے۔ناخنِ تدبیر ایسے عشقی ٹڈوں کو کبھی نہیں مل سکتے۔‘‘
’’ تم میں کوئی بھی نکتہ سنج نہیں،اب صرف گنج ہی کی گفتگو جاری رکھ کر رنگ میں
بھنگ نہ ڈالو۔‘‘ منشی گھسیٹا خان نے کہا’’ میری داستانِ حسرت پر غور کرو۔گرمیوں کی
ایک صبح میں بادامی باغ کی سیر کر رہا تھا کہ میرے دل میں نئی ترنگ اُٹھی اور میں
نے یہ گیت گایا:
کچی گر ی دا رنگ ہووے تے اکھ بادامی
ایو جیہی مُٹیار مِلے تے دیواں سلامی
ترجمہ:رنگ ہو کچے ناریل جیسا اورآنکھ ہو مثلِ
بادام
ایسی دوشیزہ کہیں ملے تو جھُک کے کروں سلام
میری تان سُن کر گوالمنڈی کی جانب سے ایک گوالا
میر ی طرف بڑھا اور کہنے لگا کہ تمھاری آواز تو پھٹے ہوئے ڈھول جیسی ہے،آئندہ اس
طرح بے سُری آواز میں گیت نہ گایا کرو۔اس خوف ناک آواز کوسُن کر اس کی بھینسیں ڈر
جاتی ہیں اور رسی تڑا کر بچ نکلنے کی کوشش کرتی ہیں۔ہر بھینس یہ چاہتی ہے کہ اس
طوفان بد تمیزی سے بچ دور کہیں دور نکل جائے۔‘‘
’’ ارے او بھینسے !تمھاری مظلوم بھینسوں کا اندازہ غلط
نہیں۔‘‘ میں نے دانت پیستے ہوئے،عفونت زدہ تھُوک نگلتے ہوئے اور زہر اُگلتے ہوئے
کہا’’ تمھاری بھینسیں تمھارے استحصالی روّیے کی وجہ سے تم سے نفرت کرتی ہیں۔تم بے
زبان بھینسوں کا دُودھ فروخت کر کے اپنی تجوری بھر لیتے ہو لیکن مظلوم بھینسوں کو
پیٹ بھر کر کھانے کو مناسب چارہ نہیں دیتے۔تُف ہے تمھاری سوچ پر،تہمت لگا کے
بھینسوں پر جو اپنی تجوری بھرے ایسے شیر فروش کو تو مر جانا چاہیے۔بھینسیں اس سماج
سے ناخوش و بیزار ہیں وہ دنیا کے رسم و رواج کو پسند نہیں کرتیں وہ چاہتی ہیں کہ
ان کے لیے مٹی کا ڈیری فارم کہیں اور بنا دیا جائے۔ جہاں جس کی لاٹھی اُس کی بھینس
جیسا جنگل کا قانون نافذ نہ ہو۔ سفید کووں،گندی مچھلیوں،بگلا بھگتوں،جو فروش گندم
نما سفہا، کالی بھیڑوں اور بھینسوں کی راہ میں جو دیوار بنے گا وہ نہیں رہے
گا۔تمھارے جیسے مفاد پرست گوالے جو ظلم و جور کے حوالے بن گئے ہیں انھیں تو محکمہ
انسدادِ بے رحمیِ حیوانات کے حوالے کرنا چاہیے۔آج کے دور کا لرزہ خیز المیہ
اور طُرفہ تماشا یہ ہے کہ محکمہ انسدادِ بے رحمیِ حیوانات کی کایا پلٹ گئی ہے اور
اب یہ محکمہ اِمدادِ بے رحمی ء حیوانات بن چُکا ہے۔ اب تو یہی ڈیری فارمنگ اور
سائنس کا حوالہ ہے،ہر زباں پر بھینس اور گوالا ہے۔‘‘
’’بند
کر ویہ بے سرو پا فلسفیانہ باتیں۔‘‘گوالے نے اپنی آستین سے اپنے منہ سے بہنے والا
جھاگ صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھیں فلسفے کی ابجد سے بھی واقفیت نہیں اور رواقیت کے
داعی بن بیٹھے ہو۔میر ی یہ بات کان کھو ل کر سن لو اگر آئندہ تم نے یہ بے سُرے گیت
الاپے تو میں تمھاری زبان گُدی سے کھینچ لوں گا۔کہاں سے آ گیا ہے شُوم ناہنجار
پیدائشی ڈُوم۔‘‘
اس کی قدر ناشناسی کے باوجود میں نے ہمت نہ ہاری
اور گلوکاری کا یہ سلسلہ چوری چھُپے جاری ر کھا۔ایک دن میری اُمید بر آئی اور ہیرا
منڈی سے ایک حسینہ نمودار ہوئی۔ یہ میرے خوابوں کی حسین و جمیل ملکہ تھی۔اس کا رنگ
کچے ناریل کی طرح سفید تھا اور چشمِ غزال بالکل بادام کی صورت میں تھیں۔اس کی چال
کڑی کمان کے تیر کے مانند تھی۔اس حسینہ کو دیکھتے ہی میرے ہوش و حواس رخصت ہو گئے
اور میں وصل کی تمنا لیے اسے دیکھتا رہ گیا۔میرا سینہ و دِ ل جو حسرتوں سے چھا گیا
تھااس حسینہ کو دیکھتے ہی میرے دِل میں ایک لہر سی اُٹھی۔میں اُٹھا اور میں نے
اُٹھ کے قدم نازنیں کے لیے۔میرا جگر دیکھو کہ میں کاسۂ چشم لیے اپنی جان پر کھیل
کر اس حسینہ کے قدموں پر گر گیا اور اس سے حسن کے جلووں کی خیرات طلب کی۔میری یہ
بے ساختگی،بے تکلفی اور بے باکی اس شوخ کو پسند نہ آئی اور اس نے میرے گریبان کو
اس طرح حریفانہ کھینچا کہ دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں کوئی فاصلہ نہ رہا۔اس
کے بعد اس حسینہ نے میری وہ دُرگت بنائی کہ مجھے دن کے وقت سورج کی روشنی میں تارے
دکھائی دینے لگے اور چھٹی کا دُودھ بھی یاد آ گیا۔‘‘
علاقے کے لوگوں مجھے وہاں سے اس طرح نکالا جیسے
دودھ سے مکھی نکالی جاتی ہے۔ بے نیل مرام اور بے آبر و ہو کر کوچۂ محبوب سے نکلنے
کے بعد کافی عرصہ تک میں بے یار و مددگار اسی راہوں پر بھٹکتا رہا جو منزل
کا نشاں نہ تھیں۔تلاشِ بسیار کے بعد مجھے سر چھپانے کے لیے جس کٹیا میں جگہ ملی وہ
بہت بوسیدہ تھی۔ ایک رات موسلادھار بارش ہوئی چھت کا پر نالہ ٹوٹ گیا اور پانی سے
ساری کٹیا بھر گئی۔ جل تھل ایک ہو گیا۔ میرے سارے کپڑے اور بسترعفونت زدہ کیچڑسے
لت پت ہو گئے۔ اس عالم یاس میں کسی نے میرے دل شکستہ کا حال نہ پوچھا۔ میں نے اپنے
کپڑوں کی گٹھڑی اٹھائی اور گندے نالے پر دھونے کے لیے لے آیا۔ آنکھوں سے
جوئے خوں رواں تھی اور دل اشک بار تھا۔ میں نے تان لگائی:
ٹوٹا پرنالہ ہے
صفائی اور نہانے کو
یہی گند ا نالہ ہے
نالے کے کنارے پر کئی مگر مچھ اور کچھوے رینگ رہے
تھے۔میں نے انہیں مخاطب کر کے کہا:
نالے کا کنارا ہے
مگر مچھ کے جبڑوں پر
افسانہ ہمارا ہے
اچانک دریا سے ایک ناگن باہر نکلی اور بولی :
ــــ ’’صرف مگرمچھ کے جبڑوں پر ہی نہیں بل
کہ بجو، سانپ، بچھو اور لدھڑ بھی تمھارے تغیر حال کو زمانے کے اتفاقات کا نام دیتے
ہیں۔ کل تک تمھیں زندگی کی ہر آسائش میسر تھی مگر اب تمھیں اس شہر نا پر ساں میں
مانگنے پر بھیک بھی نہیں ملتی‘‘
میں نے ناگن سے پوچھا تم کون ہو؟میرے سب دیرینہ
ساتھی تو ابتدا ہی میں دفینہ لُوٹ کر نو دو گیارہ ہو گئے اب تم انتہا کی خبر لینے
کیسے پہنچی ہو؟تم ایک خزاں رسیدہ درخت کے پاس اس وقت سایہ طلب پہنچی ہو جب سمے کی
دیمک نے تنے کو مکمل طور پر کھوکھلا کر دیا اور آلامِ روزگار کی تمازت اثمار و
اشجار کی تازگی کو کھا گئی۔‘‘
ناگن نے کہا’’ میرا نام ظِلو ہے میں نے پا زمین
دفن میں اپنی کرگسی آنکھیں کھولیں پچھلے جنم میں طوائف کی حیثیت سے گزرنے
والی میری زندگی میرے لیے شرمندگی کا باعث بن گئی۔میرے چاہِ زقن سے ایک عالم
سیراب ہوا،قلزمِ وقار کا ہر گوشہ پایاب ہوا۔میری موت کے بعد زمانے نے مجھے اس ناگن
کی صورت میں بازیاب کیا۔ میر ی طرح تم بھی سادیت پسندی کے جان لیوا روگ کے علیل
ہوا سی لیے ہر جگہ ذلیل ہو۔ اب تم مرو گے اور اگلے جنم میں تم ایک اژدہا کی صورت
میں لذتِ ایذا حاصل کرو گے۔ تمھارے نئے جنم کے بعد ہم دونوں ایک ہو جائیں گے اور
انسانیت پر بے پناہ ستم ڈھائیں گے، مظلوموں کے چام کے دام چلائیں گے،ہر گھر میں
صفِ ماتم بچھائیں گے اور مجبوروں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیں گے۔‘‘
تم میری حقیقت سے کیسے آگاہ ہو؟ میں نے پوچھا
’’ اگلے جنم کی بات تو تم نے کہ دی لیکن یہ نہیں بتا یا کہ میرا یہ پہلا جنم
کب اپنے انجام کو پہنچے گا؟میری زندگی کا موجودہ سفر کبھی منزل سے آشنا ہو سکے
گا۔دمِ آخریں بلا شبہ بر سرِ را ہ ہے لیکن میرے دِلِ نا صبور میں اب بھی وصل
کی تمنا انگڑائیاں لے رہی ہے۔کیا مرنے سے پہلے مجھے کسی حسین و جمیل محبوب کی
زلفوں کا گھنا سایہ نصیب ہو سکے گا؟‘‘
’’تمھارا
وصل اب موت ہی سے ہو گا۔ تم اس وقت اژدہا سے بھی زیادہ زہریلے ہو ‘‘ ناگن اپنا پھن
لہراتے ہوئے بولی ’’ تم اپنی انگلی کو اپنے دانتوں سے کاٹو تو تمھارے عفونت زدہ
اورسڑاند کے مارے پُورے بدن میں زہر سرایت کر جائے گا۔ تمھارے دانتوں کے مہلک زہر
کا تریاق کہیں نہیں ملے گا اور تم خارش زدہ باؤلے کتے کی طر ح تڑپ تڑپ کر مر جا ؤ
گے‘‘
’’نہیں
ہر گز نہیں مجھے اپنا یہ اذیت نا ک انجام پسند نہیں ‘‘ میں نے روتے ہوئے کہا
’’ اس جبر کا انسداد کرو میری کچھ امداد کرو اور میرا انجام کچھ سہل کرو اور
ہمدردی میں اب پہل کرو۔‘‘
’’ ایک
صورت اور ہے اور وہ تمھارے لیے محلِ غور ہے۔‘‘ غصے سے بپھری اور شکل سے نِکھری
ہوئی ناگن نے کہا’’ جذبۂ رقابت سے خجل بڑے سہل طریقے سے میں تمھیں ڈس لوں لیکن میر
ا زہر بہت کم ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ تمھیں ڈسنے سے تمھارا زہر میرے ریشے ریشے میں
سرایت کر جائے گا۔ تجھ سے تو زہر خواری کی ذلت اٹھ سکتی ہے لیکن مجھ میں یہ تاب
نہیں ‘‘ یہ کہہ کر ناگن دریا ڈُبکی لگا کر غائب ہو گئی اور اچانک ایک مُذی و مکار
لومڑی ادھر سے گزری،جس نے نارسائی کے باعث دم رُکنے کے بعد انگوروں کی تُرشی کا
بہانہ بنا کر انھیں کھانے کا ارادہ ترک کر کے اس کھسیانی بلی کو بھی مات دی تھی جس
نے کھمبا نوچ کر اپنی اندرونی سفلگی کا بر ملا اظہار کیا تھا۔ لومڑی نے جب منشی
گھسیٹاخان کو خاک بہ سر،پائمال اور خوار و زبوں دیکھا تو اپنے مکر کی چالوں سے اس
کو متوجہ کر نے کی خاطر ٹسوے بہاتے ہوئے بولی ’’اب تو تم پر یہ راز کھُل گیا ہو گا
کہ جب ظلم کی فصل پک جاتی ہے تو دست قضا فوراً درانتی سنبھا لیتا ہے اورسروں کی
فصل سے کھلیان پٹ جاتے ہیں۔اس وقت فطرت کی تعزیروں سے بچنے کی دوڑ بے فائدہ ہوتی
ہے،حالات کا جبر تمھاری کلائی مروڑ کر گردن توڑ دیتا ہے۔اس وقت تم حالات کے نرغے
میں آ چُکے ہو۔‘‘
’’تم
کون ہو منشی گھسیٹا خان نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا ’’تم نے منشی گھسیٹا
خان جسے اپنے عہد کے نعمت خان کلانونت کی حیثیت سے ہر بوالہوس اچھی طرح
جانتا ہے،کے ساتھ اس گستاخانہ لہجے میں گفتگو کی جسارت کیسے کی؟ یہ بھی بتاؤ
کہ کُو بہ کُو میری ذلت کی داستان سنا کر میری رسوائی کی جو نوبت آئی ہے اس میں جو
قبیح کردار تم نے ادا کیا ہے اس کے پیچھے کس کا اشارہ تھا؟‘‘
’’تُف
ہے تم پر کہ تم اپنے خون کو بھی نہ پہچان سکے۔‘‘لومڑی نے عیاری کی منحوس چمک سے
لبریز آنکھیں مٹکاتے اور خون سے لتھڑے دانت پیستے ہوئے کہا’’ میں پچھلے جنم
میں تیری ماں تھی۔میرا نام ثباتو تھا۔ میری پہچان شہر کی سب سے بڑی نائکہ،رقاصہ،مغنیہ
اور طوائف کی تھی۔ ‘‘
’’لوگ
مجھے مشکوک نسب کا درندہ قرار دیتے ہیں۔‘‘منشی گھسیٹا خان نے چمگادڑ کی طرح آنکھیں
بند کرتے ہوئے اور بُوم کے مانند منہ کھول کر منحوس چیخ نکالتے ہوئے کہا ’’میرا
مرحوم باپ زوال کے وبال کے بعد کس حال اور کس خیال میں ہے؟‘‘
’’تمھارا
نسب یقیناً مشکوک ہی سمجھا جائے گا کیونکہ میں خود بھی تمھاری حقیقت کی شناسا
نہیں۔‘‘مکار لومڑی نے دُم ہلاتے ہوئے کہا’ ’ تو نہ صرف ثقلِ سماعت کے باعث
بہرا ہے بل کہ عقل و فہم سے بھی یکسر بے بہرہ ہے۔ تمھارے باپ کو شہر کا سب سے ظالم
بھڑوا سمجھا جاتا تھا۔اب وہ مسخرادوسرے جنم میں بھیڑیے کے روپ میں جنگلوں کی خاک
چھانتا پھرتا ہے۔‘‘
’’اب
میں یہ بات اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔‘‘منشی گھسیٹا خان نے مثلِ حمار کان ہلاتے
ہوئے اور دُم دباتے ہوئے کہا ’’جب میں جوان تھا تو لوگ مجھے علاقے کا مشاق
خرسوار،مضبوط لٹھ بردار بھتہ خور قرار دیتے تھے۔‘‘
’’سچ
کہتے ہو،یوں تو جھُوٹی ہے ؟ذات منشی کی لیکن دِل کو لگتی ہے بات منشی کی۔‘‘لومڑی
نے اپنے غلیظ پنجوں سے اپنا منہ صاف کرتے ہوئے کہا ’’تمھار باپ بھی ملک کا بڑا خر
سوار تھا۔وہ ایک بار بپھرے ہوئے گدھے سے گتھم گتھا ہو گیا اور گدھے کو پچھاڑ ر اسے
دو لتیاں رسید کیں۔اس کے بعد وہ پورے علاقے میں خر افگن کے نام سے پہچانا جاتا
تھا۔تمھارا باپ بہلو خان ایک خو نخوار بھیڑیا بن کر جنگل میں منگل کی کیفیت
سامنے لا رہا ہے۔یوں تو جنگل میں اب بدھ اور یُدھ کا سماں ہے اس کے باوجود اس
بھیڑیے پرخچر کا گُماں ہے۔اس جنگل میں نافذ جنگل کا قانون مسلسل مظلوموں کی آرزوؤں
کا خون کر رہا ہے اور ہر درندہ اس خون آشامی پر دوسرے درندے کو مطعون کر رہا
ہے۔کئی چرواہے اپنی اپنی ڈفلی لیے اور اپنا اپنا راگ الاپتے اس جنگل میں بد روح
نما ہوتے ہیں لیکن مضبوط کاٹھی کو جو بھی لٹھ بر دار چرواہا خوف و دہشت کی فضا
پیدا کرنے میں کام یاب ہو جاتا ہے،وہی اپنی پسند کی بھینس کو ہانک کر لے جاتا ہے
اور میدان ما ر لیتا ہے۔
منشی گھسیٹا خان،زادو لُدھیک اور اکرو بھٹیارا ہوس
اور جنسی جنون کی جن راہوں پر چل نکلے تھے وہ انھیں مکمل تباہی اور انہدام کی جانب
لے جا رہی تھیں۔ تیزی سے بدلتے ہوئے وقت کے ساتھ ساتھ وقت کے تقاضے بھی بر ق
رفتاری کے ساتھ بدلتے رہے،خوشی کے لمحات غموں میں ڈھلتے رہے۔ان کے ساتھ المیہ یہ
ہوا کہ ان کی آستینوں میں سانپ بھی پلتے رہے مگر یہ ان تلخ حقائق سے بے خبر اپنی
دھُن میں مگن رہے مگر من ہی من میں کُڑھتے اور جلتے رہے۔موقع پرستی اور منافقت کی
اساس پر استوران تینوں بے ضمیروں کی رفاقت گرگ آشتی کی مثال تھی۔دن کی روشنی میں
تو یہ تینوں بادامی باغ میں مل بیٹھتے اور چوری،ٹھگی اور لوٹ مارکی وارداتوں کے
منصوبے بناتے۔ چور محل میں جنم لینے والے کئی سانپ تلے کے بچھو، بے شمار زاغ و زغن
اور شہر خموشاں کے بجو بھی ان کے ہم نوا تھے۔شام کے سائے ڈھلتے ہی و ہ سب اپنی
اپنی راہ لیتے مگر یہ تینوں ایک دوسرے سے چھُپ چھُپ کر منشیات اور جنس و جنون کے
مکروہ دھندے سے کالا دھن کمانے میں مصروف ہو جاتے۔ منشی گھسیٹا خان ان کا گُرو تھا
لیکن اس کے کرگس قماش کے دونوں چیلے زندگی بھر اپنے گُرو کو نوچتے رہے اور اس کی
بربادی کے بارے میں سوچتے رہے۔ گردشِ حالات سے ظاہر ہوتا تھا کہ منشی گھسیٹا خان
اب اپنے انجام کی طرف بڑھ رہا تھا،فطرت کی سخت تعزیریں اس کی منتظر تھیں۔جب بھی
ہجوم یاس میں اس کا دل گھبراتا تو بادامی باغ کا چکر لگا کر راوی کے کنارے پر جا
نکلتا اور ایام گزشتہ کی کتاب کے اوراق پلٹنے لگتا۔
گرمیوں کا موسم تھا،منشی گھسیٹا خان راوی کے کنارے
چہل قدمی میں مصروف تھا۔شام کے سائے ڈھل رہے تھے منشی گھسیٹا خان واپس بادامی باغ
جانے کے لیے ہڑ بڑا کر اٹھا۔ اچانک اس کا سر چکرا گیا اور پاؤں لڑکھڑا گئے۔ وہ
دریائے راوی کے کنارے لڑھکتا ہوا دریا کے گرداب میں جا گرا۔ بے شمار مگر مچھ پانی
پر تیرتے ہوئے اس ننگ وجود پر جھپٹے اور پلک جھپکتے میں اس کی تکا بو ٹی کر دی۔
اگلے روز راوی کے کنارے پر ایک خون آشام اژدہا نمودار ہوا جسے پہلے کسی نے نہ
دیکھا تھا۔ اس اژدہا کے خوف سے لوگ راوی کے کنا رے پر جانے سے خوف زدہ رہنے
لگے۔بادامی باغ میں جرائم پیشہ اُچکوں میں سے ایک کم ہو گیا۔اب اس کے باقی دو
ساتھی زادو لُدھیک اور اکرو بھٹیارا جب بادامی باغ سے نکل کر راوی کے کنارے پہنچتے
اور وہاں آنکھوں سے شعلے نکالتے،منہ سے خون اُگلتے اس مانوس نووارد اژدہا کو
دیکھتے جو چوہوں اور حشرات پر جھپٹ رہا ہوتا تو دائمی مفارقت دے جانے
والے اپنے گُرو کو یاد کر کے دل کو سنبھالنے کی کوشش کرتے اور وہ بے اختیار
پُکار اُٹھتے:
تنہا گئے کیوں اب رہو تنہا کوئی دن اور
٭٭٭
No comments:
Post a Comment