اٹھوں نہ خاک سے کشتہ میں کم نگاہی
کا
دماغ کس کو ہے محشر کی داد خواہی
کا
سنو ہو جل ہی بجھوں گا کہ ہو رہا
ہوں میں
چراغ مضطرب الحال صبح گاہی کا
وحشت میں جو سیا سو کہیں کا کہیں
سیا
محشر سوائے کیا ہو اسے التیام میرؔ
یہ زخم سینہ جائے گا میرا وہیں سیا
رام صیاد کا ہوتے ہی خدا یاد آیا
لوہو پینے کو مرا بس تھی مری تشنہ
لبی
کاہے کو کیجیے تصدیع یہ جلاد آیا
No comments:
Post a Comment