BEAUTIFUL URDU POEM & GHAZALS & POETRIES BY AHMED FARAZ
آپ کی خد مت میں اب میں پیش کرنے جارہا ہوں احمد فراز کی بہترین، اردو نظمیں ، غزلیں اور شاعری مجھے امید ہے کہ آپ لطف اندوز ہوں گے
بھول
افق پر
دھندلکے، شفق میں الاؤ گھٹاؤں میں شعلے، چمن میں ببول
بہاروں پہ
صرصر کے گھمبیر سائے
نظاروں کے
دامن میں نکہت بسائے
دلوں پر
اُداسی، دماغوں میں الجھن، خیالوں میں تلخی، نگاہیں ملول
ہر اک سمت
ویرانیوں کا نزول
جلاتا رہا میں
اندھیروں میں شمعیں، کھلاتا رہا خار زاروں میں پھول
شعاعوں سے
تاریکیوں کو اُجالے
خرابوں پہ
تعمیر کا عکس ڈالے
بڑے زخم کھا
کر مگر مسکرا کر کیے زندگی نے حوادث قبول
اڑاتی پھری
دشت و صحرا کی دھول
وہی وقت کی
سست رفتار گردش وہی موت کی رہگزاروں کا طول
وہی چار سو
دہکے دہکے الاؤ
وہی گلستاں
میں خزاں کا رچاؤ
وہی چاند
تاروں پہ کہنہ دھند لکے وہی ظلمتوں کا پرانا اصول
مگر کون سمجھے
یہ کس کی تھی بھول؟
٭٭٭
فرار
کئی ایاغ دل
میں آنسوؤں کے بیج بو گئے
شرابِ لالہ
گوں کے عکس عکس میں
جہانِ رنگ و
بو لیے
فریبِ آرزو
دیے
گھنیری
آندھیوں کے رقص رقص میں
کئی چراغ
ظلمتوں کی وادیوں میں کھو گئے
بچھے رہے سراب
گام گام پر
جمالِ ضو فشاں
لیے
مآلِ خونچکاں
لیے
حیات کے ہر اک
نئے مقام پر
ہزاروں داغ
مسکرا دیے چراغ ہو گئے
مگر چلے ہو کس
کی جستجو میں تم
وفا کی روشنی
لیے
ہر ایک چاک دل
سیئے
تصوّرِ حصولِ
آرزو میں تم
کئی دماغ موت
کی کمیں گہوں میں سو گئے
احتساب
سوچ مفلوج ہے
حالات کے زندانوں میں
عقل پر تلخ
حوادث کے گراں تالے ہیں
آگہی سرود
خموش
منجمد شعلۂ
ہوش
ذہن پر بھولے
فسانوں کے گھنے جالے ہیں
کوئی آہٹ بھی
نہیں دل کے سیہ خانوں میں
قہقہے وقت کے
خوشرنگ شبستانوں میں
کتنی دلدوز و
غمیں آہوں کے رکھوالے ہیں
آرزو جامِ طرب
آبرو زہر بلب
کتنے ہی ناگ
خزانوں نے یہاں پالے ہیں
کتنے پیکر ہیں
جو ڈھل جاتے ہیں ایوانوں میں
زندگی رینگتی
ہے موت کے ویرانوں میں
انقلابات نے
انداز بدل ڈالے ہیں
رات دن شام و
سحر
کس کو جرأت ہو
مگر
ناگ خود ہی تو
خزانوں نے یہاں پالے ہیں
آگ پھولوں نے
بکھیری ہے گلستانوں میں
آگ
مفلسو! اپنے
مقدّر کی شکایت نہ کرو
اِس سے انسان
کے ایمان میں فرق آتا ہے
ہم تو ناچیز
سے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی بات میں
کیا مصلحتِ یزداں ہے
کتنے گمراہ و
گنہگار ہوئے جاتے ہو
کیا کہا؟
“خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں
دمبدم آگ کے
بے رحم لپکتے شعلے
اپنے بوسیدہ
مکاں راکھ کیے دیتے ہیں
خاک ہی خاک
ہوئی جاتی ہے دنیا اپنی
اور اس آتش و
ظلمات کے سیلاب میں ابھی
اسی پندار اسی
شان سے استادہ ہیں
کیا خدا صرف
غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے”
ٹھیک کہتے ہیں
مگر خام عقائد والو
ہم تو تقدیر
کے بندے ہیں ہمیں کیا معلوم
کونسی بات میں
کیا مصلحتِ یزداں ہے
اور پھر اپنی
شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے
وہی ہوتا ہے
جو منظورِ خدا ہوتا ہے
مسیحا
میری افسردگی سے پریشاں نہ ہو
تو مری تلخیوں کا سبب تو نہیں
تیری آنکھیں تو میری ہی دمساز ہیں
تھیں کبھی اجنبی لیکن اب تو نہیں
تجھ کو میری مسرّت مقدّم سہی
تیرا غم مجھ کو وجہِ طرب تو نہیں
تیرا احسان ہے تُو نے میرے لئے
اپنی پلکوں سے راہوں کے کانٹے چُنے
خود کڑی دھُوپ میں رہ کے میرے لئے
تُو نے زلفوں کے شاداب سائے بُنے
میری خاطر زمانے کو پاگل کہا
میری خاطر زمانے کے طعنے سُنے
تُو مری زندگی ہے مگر جانِ من
میرے دل میں کئی گھاؤ ایسے بھی ہیں
جن کا درماں تری دسترس میں نہیں
ایک غم جس کی شدّت ہمہ گیر ہے
تیرے بس میں نہیں میرے بس میں نہیں
تشنگی
دیکھو پگھلا پگھلا سونا بہہ نِکلا کہساروں سے
دیکھو نازک نازک کرنیں ٹوٹ رہی ٹیلوں پر
دیکھو بھینی بھینی خوشبو آتی ہے گلزاروں سے
دیکھو نیلے نیلے بادل جھُول رہے جھیلوں پر
تم بھی سُندر سُندر سپنوں کی لہروں پر بہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ
سُلگا سُلگا موسم ہے شعلوں کی دہکتی حِدّت سے
چڑھتے سورج کے سائے میں ساری دنیا جلتی ہے
دہک دہک اُٹھی ہیں سڑکیں تپتی دھوپ کی شدّت سے
ابھی نہ جاؤ دیکھو کتنی تیزی سے لُو چلتی ہے
اِس کو بھی اِک جبرِ مشیّت سمجھو اور سہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ
دیکھو چار طرف ٹھنڈے ٹھنڈے سائے لہراتے
ہیں
تارے نکھرے موتی بکھرے شام کا جادو قائم ہے
خنک خنک پھولوں کے جھونکے خوشبوئیں برساتے ہیں
ٹھیک ہے تم کو جانا ہے پر ایسا بھی کیا لازم ہے
ٹھہرو کچھ باتیں ہم سے سُن لو کچھ تم کہہ جاؤ
اور ذرا کچھ لمحے ٹھہرو اور ذرا رہ جاؤ
خریدار
دلِ بے تاب کی
موہوم سی تسکیں کے لئے
اِک نظر
دیکھنے آیا تھا تجھے دیکھ لیا
آج کی رات بھی
تُو اپنے دریچے کی طرف
حسبِ معمول
نئی شان سے اِستادہ ہے
“تَیرتے ہیں تری آنکھوں میں اشارے کیا کیا”
دیدنی ہے ترے
جلووں کی نمائش لیکن
اب یہ عالم ہے
کہ احساسِ تہی دستی سے
تیرے زینے کی
طرف تیرے دریچے کی طرف
پاؤں تو کیا
مری نظریں بھی نہیں اُٹھ سکتیں
ایک منظر
دُور کچھ
ماتمی نعروں سے فضا گونج اُٹھی
چند مجذوب سے
لوگوں کا الم کیش گروہ
(کچھ سیہ پوش تماشائی بہ اندازِ جلوس)
چادرِ گُل سے
سجائے ہوئے اعلام لیے!
دمبدم نیند
میں ڈوبے ہوئے کوچوں کی طرف
چیختا پیٹتا
بڑھتا ہی چلا جاتا ہے
یک بیک کھلنے
لگے بند دریچوں کے کِواڑ
چلمنیں کانپتی
باہوں کے سہارے اُٹھیں
جیسے دم توڑتے
بیمار کی بوجھل پلکیں
اور کئی مضطر
و بے تاب دمکتے چہرے
ایک دلچسپ و
الم ناک تماشے کے لئے
تنگ و تاریک
جھروکوں کے گھنے پردوں سے
نُور کے چشموں
کی مانند اُبل آئے ہیں
تفاوت
تو کیوں ہے
اُداس مسکرا دے
کیوں تجھ کو
غمِ وفا نے گھیرا
زنگارِ الم سے
دُور ہی رہ
آئینہ صفت
جمال تیرا
کتنی ہی سیاہ
شب ہو لیکن
کب چاند پہ
چھا سکا اندھیرا
کب موجۂ روشنی
تھمی ہے
دریاؤں پہ
دھُول کب جمی ہے
میں کیسے
ہنسوں کو دردِ ہستی
ہے میرے شعور
کا تقاضا
حالات کی دھوپ
میری قسمت
آلام کی ریگ
میری دنیا
میں سایۂ نخل
کو بھی ترسوں
صحرا کی طرح
وجود میرا
صحراؤں میں
پھول کب کھلے ہیں
ہم دونوں میں
کتنے فاصلے ہیں
کنیز
حضور آپ اور
نصف شب مرے مکان پر
حضور کی تمام
تر بلائیں میری جان پر
حضور خیریت تو
ہے حضور کیوں خموش ہیں
حضور بولیے کہ
وسوسے وبالِ ہوش ہیں
حضور، ہونٹ
اِس طرح سےکپکپا رہے ہیں کیوں
حضور آپ ہر
قدم پہ لڑکھڑا رہے ہیں کیوں
حضور آپ کی
نظر میں نیند کا خمار ہے
حضور شاید آج
دشمنوں کو کچھ بخار ہے
حضور مسکرا
رہے ہیں میری بات بات پر
حضور کو نہ
جانے کیا گماں ہے میری ذات پر
حضور منہ سے
بہہ رہی ہے پیک صاف کیجیے
حضور آپ تو
نشے میں ہیں معاف کیجیے
حضور کیا کہا،
مَیں آپ کو بہت عزیز ہوں
حضور کا کرم
ہے ورنہ مَیں بھی کوئی چیز ہوں
حضور چھوڑیے
ہمیں ہزار اور روگ ہیں
حضور جائیے کہ
ہم بہت غریب لوگ ہیں
معبود
بہت حسین ہیں تیری عقیدتوں کے گلاب
حسین تر ہے مگر ہر گلِ خیال ترا
ہم ایک درد کے رشتے میں منسلک دونوں
تجھے عزیز مرا فن مجھے جما ل ترا
مگر تجھے نہیں معلوم قربتوں کے الم
تری نگاہ مجھے فاصلوں سے چاہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ خلوتوں میں مری
لہو اگلتی ہوئی زندگی کراہتی ہے
تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں
یہ فن نہیں ہے اذیت ہے زندگی بھر کی
یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے
یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی
سوال؟
(فراق کی تصویر دیکھ کر)
اک سنگ تراش
جس نے برسوں
ہیروں کی طرح
صنم تراشے
آج اپنے صنم
کدے میں تنہا
مجبور نڈھال
زخم خوردہ
دن رات پڑا
کراہتا ہے
چہرے پہ اجاڑ
زندگی کے
لمحات کی ان
گنت خراشیں
آنکھوں کے
شکستہ مرقدوں میں
روٹھی ہوئی
حسرتوں کی لاشیں
سانسوں کی
تھکن بدن کی ٹھنڈک
احساس سے کب
تلک لہو لے
ہاتھوں میں
کہاں سکت کہ بڑھ کر
خود ساختہ پیکروں
کو چھو لے
یہ زخم طلب یہ
نامرادی
ہر بت کے لبوں
پہ ہے تبسم
اے تیشہ بد ست
دیوتاؤ
انسان جواب
چاہتا ہے
شہر نامہ
(اوجڑی کیمپ کے حوالے
سے)
وہ
عجیب صبحِ بہار تھی
کہ
سحر سے نوحہ گری رہی
مری
بستیاں تھیں دھُواں دھُواں
مرے
گھر میں آگ بھری رہی
مرے
راستے تھے لہو لہو
مرا
قریہ قریہ فگار تھا
یہ
کفِ ہوا پہ زمین تھی
وہ
فلک کہ مشتِ غبار تھا
کئی
آبشار سے جسم تھے
کہ
جو قطرہ قطرہ پگھل گئے
کئی
خوش جمال طلسم تھے
جہیں
گرد باد نگل گئے
کوئی
خواب نوکِ سناں پہ تھا
کوئی
آرزو تہِ سنگ تھی
کوئی
پھُول آبلہ آبلہ
کوئی
شاخ مرقدِ رنگ تھی
کئی
لا پتہ میری لعبتیں
جو
کسی طرف کی نہ ہو سکیں
جو
نہ آنے والوں کے ساتھ تھیں
جو
نہ جانے والوں کو رو سکیں
کئی
تار ساز سے کٹ گئے
کسی
مطربہ کی رگِ گلو
مئے
آتشیں میں وہ زہر تھا
کہ
تڑخ گئے قدح و سبو
کوئی
نَے نواز تھا دم بخود
کہ
نفس سے حدّتِ جاں گئی
کوئی
سر بہ زانو تھا باربدؔ
کہ
صدائے دوست کہاں گئی
کہیں
نغمگی میں وہ بَین تھے
کہ
سماعتوں نے سُنے نہیں
کہیں
گونجتے تھے وہ مرثیے
کہ
انیسؔ نے بھی کہے نہیں
یہ
جو سنگ ریزوں کے ڈھیر ہیں
یہاں
موتیوں کی دکان تھی
یہ
جو سائبان دھوئیں کے ہیں
یہاں
بادلوں کی اڑان تھی
جہاں
روشنی ہے کھنڈر کھنڈر
یہاں
قمقموں سے جوان تھے
جہاں
چیونٹیاں ہوئیں خیمہ زن
یہاں
جگنوؤں کے مکان تھے
کہیں
آبگینہ خیال کا
کہ
جو کربِ ضبط سے چور تھا
کہیں
آئینہ کسی یاد کا
کہ
جو عکسِ یار سے دور تھا
مرے
بسملوں کی قناعتیں
جو
بڑھائیں ظلم کے حوصلے
مرے
آہوؤں کا چکیدہ خوں
جو
شکاریوں کو سراغ دے
مری
عدل گاہوں کی مصلحت
مرے
قاتلوں کی وکیل ہے
مرے
خانقاہوں کی منزلت
مری
بزدلی کی دلیل ہے
مرے
اہلِ حرف و سخن سرا
جو
گداگروں میں بدل گئے
مرے
ہم صفیر تھے حیلہ جُو
کسی
اور سمت نکل گئے
کئی
فاختاؤں کی چال میں
مجھے
کرگسوں کا چلن لگا
کئی
چاند بھی تھے سیاہ رو
کئی
سورجوں کو گہن لگا
کوئی
تاجرِ حَسَب و نَسَب
کوئی
دیں فروشِ قدیم ہے
یہاں
کفش بر بھی امام ہیں
یہاں
نعت خواں بھی کلیم ہے
کوئی
فکر مند کلاہ کا
کوئی
دعویٰ دار قبا کا ہے
وہی
اہلِ دل بھی ہیں زیب تن
جو
لباس اہلِ ریا کا ہے
مرے
پاسباں ، مرے نقب زن
مرا
مُلک مِلکِ یتیم ہے
مرا
دیس میرِ سپاہ کا
مرا
شہر مالِ غنیم ہے
جو
روش ہے صاحبِ تخت کی
سو
مصاحبوں کا طریق ہے
یہاں
کوتوال بھی دُزدِ شب
یہاں
شیخِ دیں بھی فریق ہے
یہاں
سب کے نرخ جدا جدا
اسے
مول لو اسے تول دو
جو
طلب کرے کوئی خوں بہا
تو
دہن خزانے کا کھول دو
وہ
جو سرکشی کا ہو مرتکب
اسے
قمچیوں سے زبوں کرو
جہاں
خلقِ شہر ہو مشتعل
اسے
گولیوں سے نگوں کرو
مگر
ایسے ایسے غنی بھی تے
اسی
قحط زارِ دمشق میں
جنہیں
کوئے یار عزیز تھا
جو
کھڑے تھے مقتلِ عشق میں
کوئی
بانکپن میں تھا کوہکن
تو
جنوں میں قیس سا تھا کوئی
جو
صراحیاں لیے جسم کی
مئے
ناب خوں سے بھری ہوئی
تھے
صدا بلب کہ پیو پیو
یہ
سبیل اہلِ صفا کی ہے
یہ
نشید نوشِ بدن کرو
یہ
کشید تاکِ وفا کی ہے
کوئی
تشنہ لب ہی نہ تھا یہاں
جو
پکارتا کہ اِدھر اِدھر
سبھی
مفت بر تے تماش بیں
کوئی
بزم میں کوئی بام پر
سبھی
بے حسی کے خمار میں
سبھی
اپنے حال میں مست تھے
سبھی
رہروانِ رہِ عدم
مگر
اپنے زعم میں ہست تھے
سو
لہو کے جام انڈیل کر
مرے
جانفروش چلے گئے
وہ
سکوت تھا سرِ میکدہ
کہ
وہ نم بدوش چلے گئے
کوئی
محبسوں میں رسن بہ پا
کوئی
مقتلوں میں دریدہ تن
نہ
کسی کے ہاتھ میں شاخِ نَے
نہ
کسی کے لب پہ گُلِ سخن
اسی
عرصۂ شبِ تار میں
یونہی
ایک عمر گزر گئی
کبھی
روزِ وصل بھی دیکھتے
یہ
جو آرزو تھی وہ مر گئی
یہاں
روزِ حشر بپا ہوئے
پہ
کوئی بھی روزِ جزا نہیں
یہاں
زندگی بھی عذاب ہے
یہاں
موت میں بھی شفا نہیں
٭٭٭
اے دل ان
آنکھوں پر نہ جا
اے
دل ان آنکھوں پر نہ جا
جن
میں وفورِ رنج سے
کچھ
دیر کو تیرے لیئے
آنسو
اگر لہرا گئے
یہ
چند لمحوں کی چمک
جو
تجھ کو پاگل کر گئ!
ان
جگنوؤں کے نور سے
چمکی
ہے کب وہ زندگی
جس
کے مقدر میں رہی
صبحِ
طلب سے تیرگی
کس
سوچ میں گم سم ہے تو
اے
بے خبر! ناداں نہ بن
تیری
فسردہ روح کو
چاہت
کے کانٹوں کی طلب
اور
اس کے دامن میں فقط
ہمدردیوں
کے پھول ہیں
رباعی
جب
روح کسی بوجھ سے تھک جاتی ہے
احساس
کی لَو اور بھڑک جاتی ہے
میں
بڑھتا ہوں زندگی کی جانب لیکن
زنجیر
سی پاؤں میں چھنک جاتی ہے
سچ کا زہر
تجھے
خبر بھی نہیں
کہ
تیری اُداس ادھوری
محبتوں
کی کہانیاں
جو
بڑی کشادہ دلی سے
ہنس
ہنس کے سُن رہا تھا
وہ
شخص تیری صداقتوں پر فریفتہ
با
وفا و ثابت قدم
کہ
جس کی جبیں پہ
ظالم
رقابتوں کی جلن سے
کوئی
شکن نہ آئی
وہ
ضبط کی کربناک شدّت سے
دل
ہی دل میں
خموش،
چُپ چاپ
مر
گیا ہے
سہرا
یوں
بھی ہوتا ہے برسوں کے دو ہم سفر
اپنے
خوابوں کی تعبیر سے بے خبر
اپنے
عہدِ محبت کے نشّے میں گم
اپنی
قسمت کی خوبی پہ نازاں مگر
زندگی
کے کسی موڑ پر کھو گئے
اور
اک دوسرے سے جُدا ہو گئے
یوں
بی ہوتا ہے دو اجنبی راہ رو
اپنی
راہوں سے منزل سے نا آشنا
ایک
کو دوسرے کی خبر تک نہیں
کوئی
پیمانِ الفت نہ عہدِ وفا
اتفاقات
سے اِس طرح مِل گئے
ساز
بھی بج اُٹھے پھُول بھی کھِل گئے
٭٭٭
روزنا
جرمن نژاد
روزنا
جرمن نژاد
اس
کے ہونٹوں میں حرارت
جسم
میں طوفاں
برہنہ
پنڈلیوں میں آگ
نیّت
میں فساد
رنگ
و نسل و قد و قامت
سرزمین
و دین کے سب تفرقوں سے بے نیاز
ہر
کسی سے بے تکلّف ایک حد تک دلنواز
وہ
سبھی کی ہم پیالہ ہم نفس
عمر
شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
روزنا
جرمن نژاد
اور
دیکھنے والوں میں سب
اس
کی آسودہ نگاہی بے محابا میگساری کے سبب
پیکرِ
تسلیم و سر تا پا طلب
ان
میں ہر اک کی متاعِ گُل
بہائے
التفاتِ نیم شب
روزنا
جرمن نژاد
اور
اس کا دل۔۔۔ زخموں سے چُور
اپنے
ہمدردوں سے ہمسایوں سے دُور
گھر
کی دیواریں نہ دیواروں کے سایوں کا سرور
جنگ
کے آتشکدے کا رزق کب سے بن چکا
ہر
آہنی بازو کا خوں
ہر
چاند سے چہرے کا نور
خلوتیں
خاموش و ویراں
اور
ہر دہلیز پر اک مضطرب مرمر کا بُت
ایستادہ
ہے بچشمِ ناصبور
کون
ہے اپنوں میں باقی
توسنِ
راہِ طلب کا شہسوار
ہر
دریچے کا مقدّر انتظار
اجنبی
مہماں کی دستک خواب
شاید
خواب کی تعبیر بھی
چند
لمحوں کی رفاقت جاوداں بھی
حسرتِ
تعمیر بھی
الوداعی
شام، آنسو، عہد و پیماں
مضطرب
صیّاد بھی نخچیر بھی
کون
کر سکتا ہے ورنہ ہجر کے کالے سمندر کو عبور
اجنبی
مہماں کا اک حرفِ وفا
نومید
چاہت کا غرور
روزنا
اب اجنبی کے ملک میں خود اجنبی
پر
بھی چہرے پر اُداسی ہے نہ آنکھوں میں تھکن
اجنبی
کا ملک جس میں چار سُو
تاریکیاں
ہی خیمہ زن
سب
کے سایوں سے بدن
روزنا
مرمر کا بُت
اور
اس کے گرد
ناچتے
سائے بہت
سب
کے ہونٹوں پر وہی حرفِ وفا
ایک
سی سب کی صدا
وہ
سبھی کی ہم پیالہ ہم نفس
عمر
شاید بیس سے اوپر برس یا دو برس
اس
کی آنکھوں میں تجسس اور بس
٭٭٭
نوحہ
اگرچہ
مرگِ وفا بھی اک
سانحہ
ہے لیکن یہ بے حسی
اس
سے بڑھ کے جانکاہ ہے
کہ
جب ہم خود اپنے ہاتھوں
سے
اپنی چاہت کو نامرادی
کے
ریگ زاروں میں دفن
کر
کے جُدا ہُوئے تو نہ
تیری
پلکوں پہ کوئی آنسو
لرز
رہا تھا نہ میرے ہونٹوں
پہ
کوئی جاں سوز مرثیہ تھا
٭٭٭
ہچ
ہائیکر
میں
کہ دو روز کا مہمان ترے شہر میں تھا
اب
چلا ہوں تو کوئی فیصلہ کر بھی نہ سکوں
زندگی
کی یہ گھڑی ٹوٹتا پل ہو جیسے
کہ
ٹھہر بھی نہ سکوں اور گزر بھی نہ سکوں
مہرباں
ہیں تری آنکھیں مگر اے مونسِ جاں
ان
سے ہر زخمِ تمنّا تو نہیں بھر سکتا
ایسی
بے نام مسافت ہو تو منزل کیسی
کوئی
بستی ہو بسیرا ہی نہیں کر سکتا
ایک
مُدّت ہوئی لیلائے وطن سے بچھڑے
اب
بھی رِستے ہیں مگر زخم پرانے میرے
جب
سے صر صر مرے گلشن میں چلی ہے تب سے
برگِ
آوارہ کی مانند ٹھکانے میرے
آج
اس شہر کل اُس شہر کا رستہ لینا
“ہائے
کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے”
یہ
سفر اتنا مسلسل ہے کہ تھک ہار کے بھی
“بیٹھ
جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے”
تو
بھی ایسا ہی دل آرام شجر ہے جس نے
مجھ
کو اس دشتِ قیامت سے بچائے رکھا
ایک
آشفتہ سر و آبلہ پا کی خاطر
کبھی
زلفوں کبھی پلکوں کو بچھائے رکھا
دکھ
تو ہر وقت تعاقب میں رہا کرتے ہیں
یوں
پناہوں میں کہاں تک کوئی رہ سکتا ہے
کب
تلک ریت کی دیوار سنبھالے کوئی
وہ
تھکن ہے کہ مرا جسم بھی ڈھے سکتا ہے
اجنبی
شہر نئے لوگ پرائی گلیاں
زندگی
ایسے قرائن میں کٹے گی کیسے
تیری
چاہت بھی مقدّس تری قربت بھی بہشت
دیس
پردیس کی تفریق گھٹے گی کیسے
ناگزیر
آج ہُوا جیسے بچھڑنا اپنا
کل
کسی روز ملاقات بھی امکان میں ہے
میں
یہ پیراہنِ جاں کیسے بدل سکتا ہوں
کہ
ترا ہاتھ مرے دل کے گریبان میں ہے
٭٭٭
کر گئے
کوچ کہاں
اتنی
مدّت دِل آوارہ کہاں تھا کہ تجھے
اپنے
ہی گھر کے در و بام بھلا بیٹھے ہیں
یاد
یاروں نے تو کب حرفِ محبت رکھا
غیر
بھی طعنہ و دشنام بھلا بیٹھے ہیں
تو
سمجھتا تھا کہ یہ در بدری کا عالم
دور
دیسوں کی عنایت تھا سو اب ختم ہوا
تو
نے جانا تھا کہ آشفتہ سَری کا موسم
دشتِ
غربت کی ودیعت تھا سو اب ختم ہوا
اب
جو تو شہرِ نگاراں میں قدم رکھے گا
ہر
طرف کھلتے چلے جائیں گے چہروں کے گلاب
دوست
احباب ترے نام کے ٹکرائیں گے جام
غیر
اغیار چُکائیں گے رقابت کے حساب
جب
بھی گائے گی کوئی غیرتِ ناہید غزل
سب
کو آئے گا نظر شعلۂ آواز میں تُو
جب
بھی ساقی نے صراحی کو دیا اِذنِ خرام
بزم
کی بزم پکارے گی کہ آغاز میں تُو
مائیں
رکھّیں گی ترے نام پہ اولاد کا نام
باپ
بیٹوں کے لیے تیری بیاضیں لیں گے
جن
پہ قدغن ہے وہ اشعار پڑھے کی خلقت
اور
دُکھتے ہوئے دل تجھ کو سلامی دیں گے
لوگ
الفت کے کھلونے لیے بچّوں کی طرح
کل
کے روٹھے ہوئے یاروں کو منا لائیں گے
لفظ
کو بیچنے والے نئے بازاروں میں
غیرتِ
حرف کو لاتے ہوئے شرمائیں گے
لیکن
ایسا نہیں ایسا نہیں اے دل اے دل
یہ
تیرا دیس یہ تیرے در و دیوار نہیں
اتنے
یوسف تو نہ تھے مصر کے بازار میں بھی
جنس
اس درجہ ہے وافر کے خریدار نہیں
سر
کسی کا بھی دکھائی نہیں دیتا ہے یہاں
جسم
ہی جسم ہے دستاریں ہی دستاریں ہیں
تو
کسی قریۂ زنداں میں ہے شاید کے جہاں
طوق
ہی طوق ہیں دیواریں ہی دیواریں ہیں
اب
نہ طفلاں کو خبر ہے کسی دیوانے کی
اور
نہ آواز کہ “او چاک گریباں والے”
نہ
کسی ہاتھ میں پتھر نہ کسی ہاتھ میں پھول
کر
گئے کوچ کہاں کوچۂ جاناں والے
٭٭٭
وہ لمحے
کتنے دروغ گو تھے
تمہاری
پوروں کا لمس ابھی تک
مری
کفِ دست پر ہے
اور
میں یہ سوچتا ہوں
وہ
لمےں کتنے دروغ گو تھے
وہ
کہہ گئے تھے
کہ
اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں
تمام
ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں
وہ
کہہ گئے تھے
تمہاری
پوریں
جو
میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں
وہی
تو قسمت تراش ہیں
اور
اپنی قسمت کو
سارے
لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو
ہماری
مانو
تو
اَب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا
میں
اس سمے سے
تمام
ہاتھوں
وہ
ہاتھ بھی
جن
میں پھول
شاخوں
سے بڑھ کے لطفِ نمو اٹھائیں
وہ
ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے
اور
ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں
اور
وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے
اور
رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑے تھے
وہ
ہاتھ بھی
جن
کے ناخنوں کے نشان
معصوم
گردنوں پر مثالِ طوقِ ستم پڑے تھے
تمام
نا مہرباں اور مہربان ہاتھوں سے
دست
کش یوں ہو رہا تھا جیسے
یہ
مٹھّیاں میں نے کھول دیں تو
وہ
ساری سچّائیوں کے موتی
مسرّتوں
کے تمام جگنو
جو
بے یقینی کے جنگوں میں
یقین
کا راستہ بناتے ہیں
روشنی
کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں
میرے
ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے
پھر
نہ تازہ ہوا چلے گی
نہ
کوئی شمعِ صدا جلے گی
میں
ضبط اور انتظار کے اس حصار میں مدتوں رہا ہوں
مگر
جب اک شام
وہ
پت جھڑ کی آخری شام تھی
ہوا
اپنا آخری گیت گا رہی تھی
مرے
بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا
تو
مٹھّیاں میں نے کھول دیں
اور
میں نے دیکھا
کہ
میرے ہاتھوں میں
کوئی
جگنو
نہ
کوئی موتی
ہتھیلیوں
پر فقط مری نا مراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں
اور
ان میں
قسمت
کی سب لکیریں مری ہوئی تھیں
٭٭٭
اے میرے
وطن کے خوش نواؤ!
(واشنگٹن میں پاکستانی
شعراء کی آمد کے موقع پر لکھی گئی)
اک
عمر کے بعد تم ملے ہو
اے
میرے وطن کے خوش نواؤ
ہر
ہجر کا دن تھا حشر کا دن
دوزخ
تھے فراق کے الاؤ
روؤں
کے ہنسوں سمجھ نہ آئے
ہاتھوں
میں ہیں پھول دل میں گھاؤ
تم
آئے تو ساتھ ہی تمہارے
بچھڑے
ہوئے یار یاد آئے
اک
زخم پہ تم نے ہاتھ رکھا
اور
مجھ کو ہزار یاد آئے
وہ
سارے رفیق پا بجولاں
سب
کشتۂ دار یاد آئے
ہم
سب کا ہے ایک ہی قبیلہ
اک
دشت کے سارے ہم سفر ہیں
کچھ
وہ ہیں جو دوسروں کی خاطر
آشفتہ
نصیب و دربدر ہیں
کچھ
وہ ہیں جو خلعت و قبا سے
ایوانِ
شہی میں معتبر ہیں
سقراط
و مسیح کے فسانے
تم
بھی تو بہت سنا رہے تھے
منصور
و حسین سے عقیدت
تم
بھی تو بہت جتا رہے تھے
کہتے
تھے صداقتیں اَمر ہیں
اَوروں
کو یہی بتا رہے تھے
اور
اب جو ہیں جا بجا صلیبیں
تم
بانسریاں بجا رہے ہو
اور
اب جو ہے کربلا کا نقشہ
تم
مدحِ یزید گا رہے ہو
جب
سچ تہہِ تیغ ہو رہا ہے
تم
سچ سے نظر چُرا رہے ہو
جی
چاہتا ہے کہ تم سے پوچھوں
کیا
راز اس اجتناب میں ہے
تم
اتنے کٹھور تو نہیں تھے
یہ
بے حسی کس حساب میں ہے
تم
چپ ہو تو کس طرح سے چپ ہو
جب
خلقِ خدا عذاب میں ہے
سوچو
تو تمہیں ملا بھی کیا ہے
اِک
لقمۂ تر کی قیمت
غیرت
کی فروخت کرنے والو
اک
کاسۂ زَر قلم کی قیمت
پندار
کے تاجرو بتاؤ
دربان
کا در قلم کی قیمت
ناداں
تو نہیں ہو تم کہ سمجھوں
غفلت
سے یہ زہر گھولتے ہو
تھامے
ہوئے مصلحت کی میزاں
ہر
شعر کا وزن تولتے ہو
ایسے
میں سکوت، چشم پوشی
ایسا
ہے کہ جھوٹ بولتے ہو
اک
عمر س عقل و صدق کی لاش
غاصب
کی صلیب پر جڑی ہے
اس
وقت بھی تم غزل سرا ہو
جب
ظلم کی ہر گھڑی کڑی ہے
جنگل
پہ لپک رہے ہیں شعلے
طاؤس
کو رقص کی پڑی ہے
ہے
سب کو عزیز کوئے جاناں
اس
راہ میں سب جئے مرے ہیں
خود
میری بیاضِ شعر میں بھی
بربادیِ
دل کے مرثیے ہیں
میں
نے بھی کیا ہے ٹوٹ کر عشق
اور
ایک نہیں کئی کیے ہیں
لیکن
غمِ عاشقی نہیں ہے
ایسا
جو سبک سری سکھائے
یہ
غم تو وہ خوش مآل غم ہے
جو
کوہ سے جُوئے شیر لائے
تیشے
کا ہنر جنوں کو بخشے
جو
قیس کو کوہکن بنائے
اے
حیلہ گرانِ شہرِ شیریں
آیا
ہوں پہاڑ کاٹ کر میں
ہے
بے وطنی گواہ میری
ہر
چند پھرا ہوں در بدر میں
بیچا
نہ غرورِ نَے نوازی
ایسا
بھی نہ تھا سبک ہنر میں
تم
بھی کبھی ہمنوا تھے میرے
پھر
آج تمہیں یہ کیا ہُوا ہے
مٹی
کے وقار کو نہ بیچو
یہ
عہدِ ستم، جہاد کا ہے
دریوزہ
گری کے مقبروں سے
زنداں
کی فصیل خوشنما ہے
کب
ایک ہی رُت رہی ہمیشہ
یہ
ظلم کی فصل بھی کٹے گی
جب
حرف کہے گا قم بہ اِذنی
مرتی
ہوئی خاک جی اٹھے گی
لیلائے
وطن کے پیرہن میں
بارود
کی بُو نہیں رہے گی
پھر
باندھیں گے ابروؤں کے دوہے
پھر
مدحِ رخ و دہن کہیں گے
ٹھہرائیں
گے ان لبوں کو مطلع
جاناں
کے لیے سخن کہیں گے
افسانۂ
یار و قصۂ دل
پھر
انجمن انجمن کہیں گے
٭٭٭
اے میرے
سارے لوگو!
اب
مرے دوسرے بازو پہ وہ شمشیر ہے جو
اس
سے پہلے بھی مرا نصف بدن کاٹ چکی
اسی
بندوق کی نالی ہے مری سمت کہ جو
اس
سے پہلے مری شہ رگ کا لہو چاٹ چکی
پھر
وہی آگ در آئی ہے مری گلیوں میں
پھر
مرے شہر میں بارُود کی بُو پھیلی ہے
پھر
سے “تُو کون ہے میں کون ہوں” آپس میں سوال
پھر
وہی سوچ میانِ من و تُو پھیلی ہے
مری
بستی سے پرے بھی مرے دشمن ہوں گے
پر
یہاں کب کوئی اغیار کا لشکر اترا
آشنا
ہاتھ ہی اکثر مری جانب لپکے
میرے
سینے میں سدا اپنا ہی خنجر اترا
پھر
وہی خوف کی دیوار تذبذب کی فضا
پھر
ہوئیں عام وہی اہلِ ریا کی باتیں
نعرۂ
حُبِّ وطن مالِ تجارت کی طرح
جنسِ
ارزاں کی طرح دینِ خدا کی باتیں
اس
سے پہلے بھی تو ایسی ہی گھڑی آئی تھی
صبحِ
وحشت کی طرح شامِ غریباں کی طرح
اس
سے پہلے بھی تو پیمانِ وفا ٹوٹے تھے
شیشۂ
دل کی طرح آئینۂ جاں کی طرح
پھر
کہاں احمریں ہونٹوں پہ دعاؤں کے دیے
پھر
کہاں شبنمیں چہروں پہ رفاقت کی ردا
صندلیں
پاؤں سے مستانہ روی روٹھ گئی
مرمریں
ہاتھوں پہ جل بُجھ گیا انگارِ حنا
دل
نشیں آنکھوں میں فرقت زدہ کاجل رویا
شاخِ
بازو کے لئے زلف کا بادل رویا
مثلِ
پیراہنِ گل پھر سے بدن چاک ہوئے
جیسے
اپنوں کی کمانوں میں ہوں اغیار کے تیر
اس
سے پہلے بھی ہوا چاند محبت کا دونیم
نوکِ
دشنہ سے کھنچی تھی مری دھرتی پہ لکیر
آج
ایسا نہیں ، ایسا نہیں ہونے دینا
اے
مرے سوختہ جانو مرے پیارے لوگو
اب
کے گر زلزلے آئے تو قیامت ہوگی
میرے
دلگیر مرے درد کے مارے لوگو
کیسی
غاصب کسی ظالم کسی قاتل کے لیے
خود
کو تقسیم نہ کرنا مرے سارے لوگو
٭٭٭
پردیس
میں جاتے سال کی آخری رات
جاتے
سال کی آخری شب ہے
چہل
چراغ کی روشنیوں سے
بادۂ
گلگلوں کی رنگت سے
جگر
جگر کرتے پیمانے
جیسے
جاتے سال کی گھڑیاں
پون
سے دیپ کی آخری قُربت
جیسے
دید کی آخری ساعت
جلتی
بُجھتی سی پھلجڑیاں
آؤ
آخری رات ہے سال کی
دل
کہتا ہے شوق وصال کی
سب
شمعیں ساری خوشبوئیں
تن
من میں رس بس جانے دو
دیکھو
آج کی رات ستارے
گُم
صُم ہیں آکاش کنارے
جاگ
رہے ہیں سوچ رہے ہیں
جاتے
سال کی آخری شب ہے
کل
کا سورج کیسا ہو گا
رقص میں
کل
شب ہوئی کسی سے ملاقات رقص میں
وہ
کب تھی زندگی تھی مرے ساتھ رقص میں
اک
دوسرے کو تھامے ہوئے بے سبب نہ تھے
محسوس
کی ہے گردشِ حالات رقص میں
اُس
کے بدن کی آنچ مرے دل تک آ گئی
آوارہ
ہو رہے تھے مرے ہاتھ رقص میں
وہ
ایڑیوں پہ مثلِ زمیں گھومتی رہی
سات
آسماں تھے رقص کناں ساتھ رقص میں
کوئی
نہیں تھا گوش بر آواز پھر بھی وہ
سرگوشیوں
میں کرتی رہی بات رقص میں
یہ
دل کہ اپنا سود و زیاں جانتا نہیں
آئے
طرح طرح کے خیالات رقص میں
لمحوں
کا التفات کہیں عارضی نہ ہو
میں
کر رہا تھا خود سے سوالات رقص میں
موسیقیوں
کی لے سے لہو موج موج تھا
وہ
اس کے با وجود تھی محتاط رقص میں
پھر
آ گئے کچھ اہلِ عبا بھی سبو بہ دست
کیا
کیا دِکھا رہے تھے کرامات رقص میں
کچھ
دیر بعد جیسے بہم ہو گئے تھے سب
اہلِ
قبا و اہلِ خرابات رقص میں
آخر
کو رقص گاہ میں ایسی پڑی دھمال
اک
دوسرے سے چھوٹ گئے ہاتھ رقص میں
وہ
کون تھی کہاں سے تھی آئی کدھر گئی
اتنا
ہے یاد بیت گئی رات رقص میں
٭٭٭
نذرِ
نذرل
فنکار
کو اپنے سحرِ فن سے
پتّھر
کو زبان بخشتا ہے
الفاظ
کو ڈھال کر صدا میں
آواز
کو جان بخشتا ہے
تاریخ
کو اپنا خون دے کر
تہذیب
کو شان بخشتا ہے
فنکار
خموش ہو تو جابر
ظلمت
کے نشان کھولتا ہے
ہر
اہلِ نظر کو دستِ قاتل
نیزے
کی اَنی پہ تولتا ہے
انسان
بزورِ خاک و خوں میں
انساں
کے حقوق رولتا ہے
فنکار
اگر زباں نہ کھولے
انبارِ
گہر نصیب اُس کا
ورنہ
ہر شہر یار دشمن
ہر
شیخِ یار رقیب اُس کا
چاہے
وہ فرازؔ ہو کہ نذرلؔ
بولے
تو صلہ صلیب اُس کا
چلو اُس
بُت کو بھی رو لیں
چلو
اُس بُت کو بھی رو لیں
جسے
سب نے کہا پتّھر
مگر
ہم نے خدا سمجھا
خدا
سمجھا
کہ
ہم نے پتّھروں میں عمر کاٹی تھی
کہ
ہم نے معبدوں کی خاک چاٹی تھی
کہ
پتّھر تو کہیں دیوارِ زنداں
اور
کہیں دہلیزِ مقتل تھے
کبھی
سرمایۂ دامانِ خلقت
اور
کبھی بختِ جنوں کیشاں
کبھی
ان کا ہدف دکانِ شیشہ گر
کبھی
صورت گرِ ہنگامۂ طفلاں
کبھی
بے نور آنکھوں کے نشاں
بے
اشک بے ارماں
کبھی
لوحِ مزارِ جاں
نہ
چارہ گر نہ اہلِ درد کے درماں
مگر
وہ بُت
چراغِ
بزمِ تنہائی
مجسّم
رنگ و رعنائی
فضا
کی روشنی
آنکھوں
کی بینائی
سکونِ
جاں
وہ
آنکھیں درد کی جھیلیں
وہ
لب چاہت کے شعلوں سے بھرے مرجاں
وہ
بُت انساں
مگر
ہم نے وفورِ شوق میں
فرطِ
عقیدت سے کہا یزداں
یہ
ہم کافر
کہ
دنیا کم نظر ناداں
سبھی
لائے ہمارے سامنے اوراقِ پارینہ
کہ
جن پر نقش تھے
اہلِ
وفا کے عکسِ دیرینہ
شکستہ
استخواں بے جان نابینا
جبیں
سجدوں سے داغی
اور
زخموں سے بھرا سینہ
اور
ان کے بُت
مآل
سوزِ اہلِ دل سے بے پروا
سبھی
خود بین و خود آرا
ہر
اک محمل نشیں تنہا
مگر
مصروفِ نظّارہ
اور
ہم اب بھی گرفتہ دل
نہ
محرومی کو سہہ پائیں
نہ
بربادی چھپانے کے رہے قابل
وہ
بُت مرمر کی سِل
اور
اہلِ سجدہ کی جبیں گھائل
سبھی
کی بات سچ
اور
ہم ندامت کے عرق میں تر بتر
شرمندگی
کے کرب سے بسمل
چلو
اب اپنے جیسے نا مرادوں سے ہنس بولیں
جو
وہ کہتے تھے وہ ہو لیں
جبیں
کے داغ آنکھوں کا لہو دھو لیں
چلو
اِس بُت کو بھی رو لیں
٭٭٭
دیباچہ
یہ
قصّہ پُرانا ہے
جب
بعض ہونٹوں نے چاہا
کہ
لفظوں کو آواز کی زندگی دیں
تو
خود اُن کو زہراب پینا پڑ رہا تھا
کہ
اہلِ حُکم کو یہ ڈر تھا
یہ
الفاظ
آواز
کی زندگی سے
کوئی
داستاں بن نہ جائیں
۔۔۔
اور وہ ہونٹ چپ ہو گئے تھے
سسکتے
تڑپتے ہُوئے لفظ
قاتل
کی شمشیر سے نیم جاں
مدّتوں
تک فراقِ صدا میں
دھڑکتے
رہے ہیں
کسے
کیا خبر تھی
کہ
ان بسملوں کا لہو۔۔۔ قطرہ قطرہ
لکیروں
کی صورت دمکتا رہے گا
اور
اب یہ
لہو
کی لکیریں
بجائے
خود اک داستاں بن گئی ہے
٭٭٭
وفا پرست
صلیبیں
وہ
دن بھی یاد ہیں مجھ کو کہ جب مری دنیا
کہاں
کے جسم، کہ سایوں کو بھی ترستی ہے
پھرا
ہوں کوچہ بہ کوچہ متاعِ درد لئے
اگرچہ
خلق مری سادگی پہ ہنستی ہے
سدا
جلاتی رہے مجھے یہ محرومی
وہی
تھا میں وہی صحرائے آرزو کے سراب
کوئی
نہ تھا کہ میں جس کے حضور نذر کروں
یہ
آنسوؤں کے چراغ، یہ شاعری کے گلاب
یہ
زخم وہ تھے جو فن کے لئے چراغ بنے
مرا
شریکِ سفر بس مرا شعور رہا
کسی
سے کر نہ سکا دردِ نارسا کا گلہ
وہ
روز و شب تھے کہ تنہائیوں سے چور رہا
رہِ
طلب میں پھر اک یہ مقام بھی آیا
کہ
دل گرفتہ ہے تُو میری زندگی کے لئے
میں
دیکھتا ہوں کہ تیری اداس آنکھوں میں
وفا
کی آنچ لئے ہیں عقیدتوں کے دیے
کسے
عزیز نہ ہو گی تری طلب کی لگن
ہزار
دل پہ پڑی ہو غمِ زمانہ کی دھول
کسے
غرور نہ ہو گا اگر تری چاہت
کھِلائے
دشتِ تمنّا میں التفات کے پھُول
٭٭٭
کونسا
نام تجھے دُوں؟
یوں
بھی گزری ہے کہ جب درد میں ڈوبی ہوئی شام
گھول
دیتی ہے مری سوچ میں زہرِ ایّام
زرد
پڑ جاتا ہے جب شہرِ نظر کا مہتاب
خون
ہو جاتا ہے ہر ساعتِ بیدار کا خواب
ایسے
لمحوں میں عجب لطفِ دل آرام کے ساتھ
مہرباں
ہاتھ ترے ریشم و بلّور سے ہاتھ
اپنے
شانوں پہ مرے سر کو جھکا دیتے ہیں
جس
طرح سالِ اُمید سے بے بس چہرے
دیر
تک ڈوبنے والے کو صدا دیتے ہیں
یوں
بھی گزری ہے کہ جب قرب کی سرشاری میں
چمک
اُٹھتا ہے نگاہوں میں ترے حُسن کا شہر
نہ
غمِ دہر کی تلچھٹ نہ شبِ ہجر کا زہر
مجھ
کو ایسے میں اچانک ترا بے وجہ سکوت
کوئی
بے فیض نظر یا تلوار سی بات
ان
گنت درد کے رشتوں میں پرو دیتی ہے
اس
طرح سے کہ ہر آسودگی رو دیتی ہے
کونسا
نام تجھے دوں مرے ظالم محبوب
تُو
ہی قاتل مرا تُو ہی مسیحا میرا
٭٭٭
پھر
آ گئی ہے، گئی رُت تمہیں خبر بھی نہیں
خبر
مجھے بھی نہیں تھی کہ رات پچھلے پہر
کسی
نے مجھ سے کہا جاگ اے دریدہ جگر
نشستہ
ہے سرِ دہلیز کوئی بام نشیں
بدل
چکا تھا سبھی کچھ تمہارے جاتے ہی
فلک
کا چاند، زمیں کے گلاب راکھ ہُوئے
وہ
راکھ خواب ہُوئی پھر وہ خواب راکھ ہُوئے
تم
آ سکو تو میں سمجھوں تمہارے آتے ہی
ہر
ایک نقش وہی آج بھی ہے جو کل تھا
یہ
راکھ خواب بنے خواب سے گلاب بنے
ہر
اک ستارۂ مژگاں سے ماہتاب بنے
برس
فراق کا جیسے وصال کا پل تھا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment