چمک جگنو کی برقِ بے اماں معلوم ہوتی ہے
قفس میں رہ کے قدرِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
کہانی میری رودادِ جہاں معلوم ہوتی ہے
جو سنتا ہے اسی کی داستاں معلوم ہوتی ہے
ہوائے شوق کی قوت وہاں لے آئی ہے مجھ کو
جہاں منزل بھی گردِ کارواں معلوم ہوتی ہے
قفس کی پتلیوں میں جانے کیا ترکیب رکھی ہے
کہ ہر بجلی قریبِ آشیاں معلوم ہوتی ہے
ترقی پر ہے روز افزوں خلش دردِ محبت کی
جہاں محسوس ہوتی تھی، وہاں معلوم ہوتی ہے
نہ کیوں سیماب مجھ کو قدر ہو ویرانیِ دل کی
یہ بنیادِ نشاطِ دو جہاں معلوم ہوتی ہے
No comments:
Post a Comment