ہلالِ
عید
ہلالِ
عید! نویدِ طرب ہے دید تری
تری
نمود خوشی کا پیام لاتی ہے
بجھی
نگاہوں میں کرنوں کی جوت بھرتی ہے
ملول
روحوں کی افسردگی مٹاتی ہے
روایتیں
ہیں کہ اس دن ہر ایک دل کی کلی
وفورِ
نشۂ راحت سے جھوم جاتی ہے
بلند و
پست کے ہر تفرقے مٹاتے ہوئے
ہر اک
محل میں ہر اک گھر میں عید آتی ہے
ہلالِ
عید! مگر میں نے ہر برس دیکھا
کہ تیری
ضو بھی نشیبوں میں مسکراتی نہیں
روایتوں
پہ مجھے بھی یقیں تو ہے لیکن
یہ خوش
عقیدگی کیا کیجیے راس آتی نہیں
خدا کے
گھر میں برابر سہی غریب و غنی
یہ رسم
ملکِ خدا میں رواج پاتی نہیں
طلوع
ہوتا رہا تو ہر ایک سال مگر
مرے وطن
کی جبیں پھر بی جگمگاتی رہی
ہلالِ
عید! تفاوت کی آتشیں آندھی
جھلس
رہی ہے مرے دیس میں خوشی کے چمن
کہیں تو
جسم پہ ریشم کے ڈھیر بارِ نظر
کہیں
بدن پہ ہیں عریانیاں ہی پیراہن
کہیں تو
کجکلہی وجہِ نخوت و تمکیں
کہیں
فلاکت و افلاس زندگی کے کفن
کہاں وہ
دن کہ غریب الدیار روتے ہیں
یہ حال
ہو تو وطن میں ستم ہے عیدِ وطن
ہلالِ
عید! تجھے غمزدوں سے کیا نسبت
کہ
خواجگانِ جہاں ہی ترے چہیتے ہیں
جو تیرے
نام کے ساغر فضا میں لہرا کر
تری
کمان کی قوسوں کو موڑ دیتے ہیں
فغاں،
کہ تجھ کو بے کسوں سے ربط نہیں
جو اپنے
دل کے سفینے لہو میں کھیتے ہیں
تری ضیا
بھی ہے گویا کٹی پتنگ جسے
بلند
بام خلا ہی میں لُوٹ لیتے ہیں
ہلالِ
عید! طرب زا سہی یہ شام مگر
چراغِ
شوق جلاتے ہوئے لرزتے ہیں
دلوں پہ
کل جو قیامت گزرنے والی ہے
اب اس
کا دھیان بھی لاتے ہوئے لرزتے ہیں
ہم اہلِ
غم تجھے خوش آمدید کیسے کہیں
جو اپنے
دکھ بھی سناتے ہوئے لرزتے ہیں
اگرچہ
تجھ پہ نگاہیں جمی ہوئی ہیں مگر
دعا کو
ہاتھ اُٹھاتے ہوئے لرزتے ہیں
No comments:
Post a Comment