کب سے سنسان خرابوں میں پڑا تھا یہ
جہاں
کب سے خوابیدہ تھے اِس وادیِ خارا کے
صنم
کس کو معلوم یہ صدیوں کے پُر اسرار
بھرم
کون جانے کہ یہ پتھر بھی کبھی تھے
انساں
صرف لب دوختہ پربت ہیں جہاں نوحہ کناں
نہ در و بام نہ دیوار و دریچہ کوئی
کوئی دہلیزِ شکستہ نہ حریمِ ویراں
شہر کے شہر ہیں پاتال کے دامن میں نہاں
کون پہچانتا ظلمت میں سیاہی کے نشاں
جو نظر ڈھونڈنے اٹھی وہ نظر بھی کھوئی
چشمِ مہتاب بھی شبنم کی جگہ خوں روئی
یہ خرابے تھے ان ادوار کے مدفن جن میں
ارضِ مشرق کے جہاں تاب اجالوں کی نمود
جگمگاتی رہی تاریخ کا تاریک وجود
رات ہوتی رہی تبدیل چمکتے دن میں
ان گنت صدیوں کی تہذیب دبی تھی ان میں
علم نے آج کریدے ہیں وہ ظلمات کے ڈھیر
وقت نے جس پہ بٹھائے تھے فنا کے پہرے
جاگ اُٹھے صورِ سرافیل سے گونگے بہرے
تا ابد جن کے مقدّر میں تھی دنیا
اندھیر
یہ مگر عظمتِ انساں ہے کہ تقدیر کے
پھیر؟
یہ عمارات، یہ مینار، یہ گلزار، یہ
کھیت
تودۂ خاک سے ہستی نے لیا تازہ جنم
جی اُٹھے وادیِ خاموش کے بے جان صنم
پر کوئی چیرے کا ذرّے کا جگر قطرۂ یم
پر کوئی چیرے کا ذرّے کا جگر قطرۂ یم
دفن کر دے گا جو خالق کو بھی مخلوق
سمیت
اور یہ آبادیاں بن جائیں گی پھر ریت ہی
ریت
No comments:
Post a Comment