جو تھا برتاؤ دنیا کا، وہی اُس نے کیا مجھ سے
میں دنیا سے انوکھا تھا کہ وہ کرتا وفا مجھ سے؟
ہوئی ہے آئینہ خانے میں کیا ایسی خطا مجھ سے
کہ تیرا عکس بھی ہے آج شرمایا ہوا مجھ سے
تپِ فرقت کا شاید کچھ مداوا ہونے والا ہے
کہ اب خود پوچھتے ہیں چارہ گر میری دوا مجھ سے
مرے پہلو میں دل رکھ کر مجھے قسمت نے لٹوایا
نہ میرے پاس دل ہوتا نہ کوئی مانگتا مجھ سے
جلا کر اے مذاقِ دید تو نے خاک کر ڈالا
جمالِ یار کا اب پوچھتا کیا ہے مزا مجھ سے
شبِ غم مجھ پہ جو گذری تھی میں اس سے نہ واقف
تھا
چراغِ صبح نے شب بھر کا قصہ کہہ دیا مجھ سے
No comments:
Post a Comment