تصویر ذہن میں نہیں تیرے جمال کی
آباد ہو کے لُٹ گئی دُنیا خیال کی
دامن کشِ حواس ہے وحشت خیال کی
کتنی جُنوں اثر ہے بہار اب کے سال کی
میں صُورتِ چراغ جَلا اور بُجھ گیا
لایا تھا عمر مانگ کے شامِ وصال کی
یوں طُورکو جَلا دِیا برقِ جمال نے
پتّھر میں رہ نہ جائے تَجلّی جمال کی
پہلے خیال، خواب سے
تھا طالبِ سُکوں
اب خواب ڈھونڈتا ہے پناہیں خیال کی
موسیٰ کو لاؤ، طور پر آ جاؤ دیکھ لو
اب بھی یہیں کہیں ہے تجلّی جمال کی
جلوَت میں ہُوں، تو شاکیِ ہنگامۂ ہجُوم
خلوَت میں ہُوں، تو ساتھ ہے دُنیا خیال کی
تاریک تھی رہِ طَلب، آزردہ تھے کلِیم
بجلی نے آ کے شمع جلادی جمال کی
چھوڑ آئی لامکاں کو بھی پیچھے تِری تلاش
اپنی حدوں سے بڑھ گئی وُسعَت خیال کی
سیماب، یہ شباب، یہ ابر، اور یہ بہار
انگڑائیاں ہیں یہ صرف نشاطِ خیال کی
No comments:
Post a Comment