پسند فرمودہ : ابو
ابراہیم محمد عثمان
|
جو ذوقِ عشق دنیا میں نہ ہمت آزما ہوتا
یہ سارا کاروان زندگی غافل پڑا ہوتا
خموشی پر مری، دنیا
میں شورش ہے قیامت کی
خدانا خواستہ لب کھل گئے ہوتے تو کیا ہوتا
شعارِ حسن پابندی،
مزاجِ عشق آزادی
جو خود اپنا ہی بندہ ہے، وہ کیا میرا خدا ہوتا
خدا نے خیر کی، تھی
راہِ عشق ایسی ہی پیچیدہ
کہ میرے ساتھ میرا رہنما بھی کھو گیا ہوتا
اڑا دی میں نے آخر
دھجیاں دامانِ ہستی کی
گریباں ہی کے دو تاروں سے کیا زور آزما ہوتا؟
کہاں یہ دہرِ کہنہ
اور کہاں ذوقِ جواں میرا
کوئی دنیا نئی ہوتی، کوئی عالم نیا ہوتا
کیا اک سجدہ میں نے
حسن کو تو ہو گیا کافر
اگر سر کاٹ کر قدموں پہ رکھ دیتا تو کیا ہوتا؟
No comments:
Post a Comment