لفظوں کے پرستار خبر ہی تجھے کیا ہے؟
جب دل سے لگی ہو تو خموشی بھی دعا ہے
دیوانے کو تحقیر سے کیوں دیکھ رہا ہے
دیوانہ محبت کی خدائی کا خدا ہے
جو کچھ ہے وہ، ہے اپنی ہی رفتارِ عمل سے
بت ہے جو بلاؤں، جو خود آئے تو خدا ہے
یوں اٹھا کرتی ہے ساون کی گھٹا
جیسے اٹھتی ہو جوانی جھوم کے
جس جگہ سے لے چلا تھا راہبر
ہم وہیں پھر آ گئے ہیں گھوم کے
آ گیا سیمابؔ جانے کیا خیال؟
طاق میں رکھ دی صراحی چوم کے
No comments:
Post a Comment