خراب ہوتی نہ یوں خاکِ شمع و پروانہ
نہیں کچھ اور تو انسان ہی بنا کرتے
مزاجِ عشق میں ہوتا اگر سلیقۂ ناز
تو آج اس کے قدم پر بھی سر جھکا کرتے
یہ کیا کیا کہ چلے آئے مدعا بن کر
ہم آج حوصلۂ ترکِ مدعا کرتے
کوئی یہ شکوہ سرایانِ جور سے پوچھے
وفا بھی حسن ہی کرتا تو آپ کیا کرتے؟
غزل ہی کہہ لی سنانے کو حشر میں سیمابؔ
پڑے پڑے یوں ہی تنہا لحد میں کیا کرتے؟
No comments:
Post a Comment