زبان بندی
سے خوش ہو، خوش رہو، لیکن یہ سن رکھو
خموشی بھی
میری افسانہ بن جائے گی محفل میں
دل اور طوفانِ
غم، گھبرا کے میں تو مر چکا ہوتا
مگر اک یہ
سہارا ہے کہ تم موجود ہو دل میں
نہ جانے موج
کیا آئی کہ جب دریا سے میں نکلا
تو دریا بھی
سمٹ کر آ گیا آغوشِ ساحل میں
No comments:
Post a Comment