میں سپردِ خود فراموشی ہوں تو محوِ خودی
تیری ہشیاری سے اچھا ہے میرا دیوانہ پن
غافلوں پر گر نہ ہو فطرت کو مُردوں کا یقیں
رات کو دنیا پہ ڈالا جائے کیوں کالا کفن
فرش سے تا عرش ممکن ہے ترقی و عروج
پھر فرشتہ بھی بنا لیں گے تجھے، انساں تو بن
خدا سے حشر میں کافر! تیری فریاد کیا کرتے؟
عقیدت عمر بھر کی دفعتاً برباد کیا کرتے؟
قفس کیا، ہم نے بنیادِ قفس کو بھی ہلا ڈالا
تکلف بربنائے فطرتِ آزاد کیا کرتے
بہت محتاج رہ کر لطف اٹھائے عمرِ فانی کے
ذرا سی زندگی جی کھول کر برباد کیا کرتے
شبِ غم آہِ زیرِ لب میں سب کچھ کہہ لیا ان سے
زمانے کو سنانے کے لئے فریاد کیا کرتے؟
No comments:
Post a Comment