Saturday, 20 May 2017

Mithan " A Famous Urdu Short Story By Rajinder Singh Bedi


















مِتھُن
راجندر سنگھ بیدی 
بازار  ہی لمبا ہو گیا تھا اور یا پھر کاروبار چھوٹا … معلوم ہوتا تھا۔پچھم کی طرف، جہاں سڑک تھوڑا اُٹھتی، آسمان سے لپٹتی اور آخر ایک دم نیچے گرجاتی ہے، وہیں دنیا کا کنارہ ہے، جہاں سے ایک جست کر لیں گے، اس جینے کے ہاتھوں مر لیں گے۔
دن بھر سر دھننے کے بعد مگن ٹکلے —کباڑیے کو دو ہی چیزیں ہاتھ لگی تھیں۔ ایک فلورنٹین اور دوسری جیمنی رائے۔ فلورنٹین کو تو شاید کوئی سَر پھرا فلم پروڈیوسر کرایے پر لے بھی جاتا، مگر جیمنی رائے؟ کوئی بات نہیں۔ آج وہ اسے چھپا کر رکھے گا تو کل اس کے پوتے پڑپوتے اس سے کروڑوں کمائیں گے، جیسے آج بھی پچھم میں کسی کے ہاں سے لیونارڈو کے اسکیچ نکل آئیں تو آرٹ کے بازاروں میں ان کی بولی لاکھوں تک جاتی ہے۔ ان لاکھوں کروڑوں کے خیال ہی سے مگن لال کی آنکھوں میں بجلیاں کوندنے لگیں اور وہ یہ بھول ہی گیا کہ وہ چالیس بیالیس سال کا اور ٹکلا—گنجا ہونے کے باوجود کنوارہ ہے، اس لیے پوتوں اور پڑپوتوں کی بات ہی نہیں۔ مگن کرتا بھی کیا؟ وہ ایک عام ہندو تھا، اتنے بڑے فلسفے کا مالک ہونے کے باوجود جس کے اندر کا بنیاپن نہیں جاتا۔ وہ باتوں میں مایا اِت آدِ کہہ کر اُسے پرے دھکیل دیتا ہے، لیکن بھیتر سے اسے جی جان سے لگاتا ہے۔ دنیا بھر میں پیسے کی اگر کوئی پوجا کرتا ہے تو ہندو۔ آج بھی اس کے ہاں دیوالی کے روز پرات کے نیچے، جیوتی کے ساتھ، دودھ پانی میں نہایا، سندور میں لگایا ہوا روپیہ ملے گا۔ دسہرے کے دن اس کی گاڑی پہ صد برگ کے ہار ہوں گے اور سب نر ناری مل کر لکشمی کے مندر کو جائیں گے— پوجا کے لیے، پیسے کے لیے تو وہ یوسف سا برَ اور پدمنی ایسی پتنی کو بھی بیچنے کے لیے تیار ہو جائے۔
اور سامنے تھا سراجا— اِیوز بیٹری کا ایجنٹ۔ اس کی دکان تھوڑا پیپل کے گھیر کے پیچھے چھپی ہوئی تھی، لجلجے ہندو جس پہ صبح کے وقت آ کر پانی میں ملے دودھ کے لوٹے ڈال جاتے تھے اور دکان اور سڑک کے بیچ کی جگہ کیچ سے اَٹ جاتی تھی۔ تقسیم کے بعد ہندستان میں رہ جانے والے سراجو کو لجلجے ہندوؤں کی اس رسم کا احترام کرنا ہی پڑتا تھا ۔ البتہ نہیں کرتے تھے تو دوغلے کتّے، جو دن بھر ٹانگ اُٹھا اُٹھا کر اس پیڑ پہ پیشاب کرتے رہتے تھے، جس کے بارے میں بھگوان نے کہا تھا— اور ورکشوں میں میں پیپل ہوں۔ ضرور وہ پچھلے جنم میں مسلمان ہوں گے جو سینتالیس کے فسادوں میں ہندوؤں کے ہاتھوں مارے گئے۔
سراجا ہمیشہ پیپل کی گولریں کھاتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ اس کی وجہ بازار کا مندہ ہونا یا بھوک نہ تھی۔ سراجا ہر اس چیز کو کھاتا تھا جو اس کی منی کو مغلّظ کر دے۔ ہاں، مسلمان لِنگ کٹوں کا یہی ہے نا۔ کھانا، پینا اور سمبھوگ کرنا۔ وہ دماغی طور پر کوئی ہو بو، کوئی خانہ بدوش ہیں، جو ہندستان میں رہیں تو پاکستان کی باتیں کریں گے۔ پاکستان میں ہوں گے تو —میرے مولا بُلا لو مدینے مجھے۔ انھیں کسی چیز سے لگاؤ نہیں۔مگن ٹکلے نے کئی بار اس بارے میں سوچا بھی — ان کا اللہ خوب عیش کرتا ہے۔ ایک اپنا بھگوان ہے، جو نیچے کے بجائے اوپر تِرکُٹی کے آس پاس ہی منزل ہوتا رہتا ہے۔ شاید سراجا جانے بوجھے بنا ایک تانترک تھا، جو بند دُرکھشا کے لیے کنڈنسی کو جگاتے اور اوپر کا راستہ بناتے تھے۔ وہ عورت کے اندر اکڑے پڑے رہتے، لیکن کسی طرح اپنے جوہرِ حیات کو نہ جانے دیتے۔ نجات کو اس خود غرضانہ طریقے سے پانے والوں، عورت کو صرف ایک ذریعہ بنانے والوں نے کبھی یہ سوچا کہ اس بیچاری کی کیا حالت ہوتی ہو گی؟ اسے بھوکا، پیاسا، روتا، تڑپتا رکھ کر کیسے موکش کو پہنچ سکتا ہے کوئی؟ کس پرماتما کو پا سکتا ہے؟ پھر جو نجات بنددسے چھٹکارہ پا لینے میں ہے— پُرش کے لیے، استری کے لیے؟ سواتی بوند تو موتی نہیں، نہ سیپی موتی ہے، موتی تو بوند کے گرنے اور سیپی کے اسے اپنے اندر لے کر منھ بند کر لینے میں ہے۔
رات لپک آئی تھی۔ باہر وہ دنیا کا کنارا اندھیرے کے ساتھ کچھ اور بھی پاس رینگ آیا تھا۔ ریشم والے ولایتی رام، کشمیری بڈشاہ، حتیٰ کہ اڈپی کے چکر پانی کی دکان بھی بند ہو گئی تھی۔ ہو سکتا ہے مہینے کا دوسرا سنیچر ہونے کی وجہ سے اس کے سب اِدلی دوسے، سانبر ردا کسیری بک گئے ہوں۔ صرف سراج کی دکان کھلی تھی۔ نہ جانے وہ کس مار پہ تھا؟ شاید اس لیے کہ بیڑی کی ضرورت رات ہی کو پڑتی ہے، مگر وہ صبح، صبح کاذب ہی کو دکان کھول لیتا تھا، جو رات ہی کا حصّہ ہوتی ہے، اس کا آخری حصّہ۔ ورنہ صبح کہاں کسی کی رہی، وہ کمیونسٹوں کی ہولی۔ شاید سراج، ٹورسٹ ایجنٹ مائیکل کی انتظار میں تھا تاکہ وہ دونوں مل کر اگلے روز کہیں آگرے، کھجوراہو کا پروگرام بنا لیں، تھوڑے پیسے کما لیں۔ نہیں، سراج پیسے کے پیچھے تھوڑا جاتا تھا؟ وہ تو جاتا تھا ان پچھمی عورتوں کے پیچھے جو کثیر الازدواجی کی وجہ سے بھوکی پیاسی آتی تھیں اور یہاں آ کر ممتاز کی محبت کو اِدھر کے کسی بھی شاہجہاں طبیعت والے مرد پہ آزماتیں اور کھجوراہو کے متھن کو زندہ کرتی تھیں۔
جبھی سراج کی آواز نے مگن لال کو چونکا دیا۔
’’ہیلو، سویٹی پائی …‘‘
سراج تقریباً اَن پڑھ تھا، مگر ٹورسٹوں کے ساتھ رہنے سے اتنی انگریزی سیکھ گیا تھا۔ اس کی آواز سے مگن سمجھ گیا۔ کیرتی آئی ہے۔
وہ سچ مچ کیرتی ہی تھی، جو چھوٹے قد، گٹھے ہوئے بدن اور موٹے نقوش والی ایک اداس لڑکی تھی۔ اس کا رنگ پکا تھا۔ پھر اوپر سے جامنی رنگ کی دھوتی پہن رکھی تھی۔ جب وہ آئی تو یوں لگا جیسے اندھیرے کا کوئی ٹکڑا متشکل ہو کر سامنے آ گیا۔ وہ ہمیشہ رات ہی کو آتی تھی، جیسے اُسے اپنا آپ چھپانا ہے اور شاید اسی لیے سراجو کی دکان کھلی تھی۔ وہ ہمیشہ کی طرح سے اس کی طرف دیکھے، اس سے بات کیے بغیر نکل آئی تھی۔ اس کے باوجود سراج سیٹیاں بجا رہا تھا۔
مگر کیرتی بات ہی کہاں کرتی تھی۔اِس سے، اُس سے، کسی سے بھی نہیں۔ اس سے بات کرنے کے لیے سوال کچھ یوں وضع کرنے پڑتے تھے کہ ان کا جواب ہاں ہو یا نہ۔ صرف اوپر سے نیچے یا دائیں سے بائیں سر ہلانے سے بات بن سکے۔ سراج کا اسے چھیڑنا مگن کو بہت ناپسند تھا۔ اس نے کئی بار مگن سے کہا بھی تھا —تو کہیں عشق کے چکّر میں تو نہیں پڑ گیا؟ جوان لڑکی ہے۔  کھینچ ڈال۔ بہت اِدھر اُدھر رہا، لکے کبوتر کی طرح سے تو وہ اُڑ جائے گی۔ لیکن مگن نے اسے ڈانٹ دیا تھا۔
درحقیقت مگن ٹکلے کا دھندہ سدِّ باب ہوتا تھا۔ کیرتی کوئی لکڑی کا کام یا شلپ بنا کر بیچنے کی غرض سے اس کے پاس لاتی، تو وہ اس میں بہت کیڑے نکالتا۔ کبھی کہتا ایسی چیزوں کی آج مانگ ہی نہیں اور کبھی یہ کہ وہ فن کے معیار و محک پہ پوری نہیں اُترتیں۔ کیرتی اور بھی منھ لٹکا لیتی، حالانکہ ان سب باتوں سے مگن لال کا ایک ہی مقصد ہوتا کہ وہ سو کی چیز پانچ دس میں دے جائے اور پھر یہ اُسے سیزن کر کے سیکڑوں میں بیچے۔
کیرتی نے یہ کام کسی آرٹ اسکول میں نہ سیکھا تھا۔ اس کا باپ نارائن ایک شلپی تھا،جو بھاؤداجی اور جیمزبرگس وغیرہ کے ساتھ نیپال اور جانے کہاں کہاں ہندستان کی وراثت کو ڈھونڈتا پھرا تھا، جو کہ دراصل لندن کے میوزیم، نیویارک اور شکاگو کی اینٹیک کی دکانوں میں رُل رہی تھی ۔ ہر سال ہمارے مندروں اور صنم خانوں سے سیکڑوں مورتیاں غائب ہوتیں اور ہزاروں میل دور کیوریو وغیرہ کی دکانوں میں جگہ پاتیں۔ نارائن مسلسل سفر سے تنگ آ کر لوٹ آیا تھا اور گھر ہی میں شلپ بنانے شروع کر دیے تھے، جنھیں کیرتی بڑے انہماک سے دیکھتی رہتی تھی اور بیچ میں اوزار پکڑانے اور رف ورک کرنے میں باپ کی مدد بھی کرتی تھی۔ یوں گھر بیٹھ جانے میں نارائن اس بات کو بھول ہی گیا کہ کھویا ہوا ورثہ پائے ہوئے سے کہیں زیادہ قیمتی ہوتا ہے اور اس کے دوگنے چوگنے ہی نہیں، سو گنا دام ملتے ہیں۔ شاید وہ جانتا بھی تھا لیکن وہ ان چند لوگوں میں سے تھا جو پیسے کی ماہیت کو سمجھ جاتے ہیں اور زندگی کے پھیلاؤ میں نہیں دیکھتے۔وہ شلپ بناتا اور مشکل سے روٹی کماتا تھا۔ آخر ایک دن دو روٹیوں کے درمیان اس کی موت واقع ہو گئی۔ وہ جگدمبا کا  بُت بنا رہا تھا،جب کہ اس کا اپنا ہی چنرل اس کے ہاتھ میں لگ گیا جس سے اُسے ٹیٹانس ہو گیا اور وہ قریب کے چھاؤنی کے اسپتال میں مر گیا۔ کہتے ہیں وہ کتّے کی موت مرا۔ کیوں نہ ایسی موت مرتا؟ جب وہ دیوی کا بت بناتا تھا تو دنوں، مہینوں اس کی چھاتیوں، اس کے کولھوں اور رانوں پہ ٹھہرا رہتا۔ چھوٹے شلپوں میں تو چھاتیاں خلا میں گھومتے ہوئے لٹّو معلوم ہوتی تھیں، لیکن بڑوں میں ٹانگیں اور ٹارسو ایک طرح کی گھڑونچی تھے۔ اصل بات وہ دودھ کے بڑے بڑے مٹکے تھے، جو اس پہ رکھے ہوتے تھے اور کولھے ہتھنی کے ماتھے کی طرح سے، جس کے نیچے سے ایک کی بجائے دو سونڈیں نکلتی تھیں۔ اس نے دُرگا کا شلپ بھی بنایا تھا، جو بڑی جبر جنگ دیو سی ہے۔ ایسی دیویوں کے بدن بناتے ہوئے نارائن کتّے کی نہیں تو کیا ہماری آپ کی موت مرتا؟
’’کیا لائی ہو؟‘‘ مگن ٹکلے نے کیرتی سے پوچھا۔
کیرتی نے اپنی دھوتی کے پلّو سے لکڑی کا کام نکالا اور دھیرے سے اسے مگن کے سامنے رول ٹاپ کی میز پر رکھ دیا۔ کیونکہ اوپر کے لیمپ کی روشنی وہیں مرکوز ہو رہی تھی۔ اسے دیکھنے سے پہلے مگن نے ایک بیروق کرسی کیرتی کے سامنے سرکا دی۔ مگر وہ بدستور کھڑی رہی۔
’’تمھاری ماں کیسی ہے؟‘‘
کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس نے ایک بار پیچھے اس طرف دیکھا جہاں سڑک نیچے گرتی تھی اور جب چہرہ مگن کی طرف کیا،تو اس کی آنکھیں نم تھیں۔
کیرتی کی ماں وہیں چھاؤنی کے اسپتال میں پڑی تھی، جہاں اس کے باپ نارائن نے دم توڑا تھا۔ بڑھیا کو مقعد کا سرطان تھا۔ اس کے پیٹ میں سوراخ کر کے ایک نلی لگا دی گئی تھی اور اس کے اوپر ایک بوتل باندھ دی گئی تھی، تاکہ بول و براز نیچے جانے کے بجائے اوپر بوتل میں چلے جائیں۔ پہلی بوتل کسی وجہ سے خراب ہو گئی تھی اور اب دوسری کے لیے پیسے چاہیے تھے۔ اگر وہ مگن کو بتا دیتی تو وہ شاید دوسرے طریقے سے بات کرتا، لیکن اس وڈورک کو دیکھ کر وہ ویسے ہی بھڑک گیا تھا۔
’’پھر وہی‘‘ اس نے کہا ’’میں نے تم سے کَے بار کہا ہے۔ آج کل ان چیزوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ یہ لیٹے ہوئے وشنو، اوپر شیش ناگ—— لکشمی پانو داب رہی ہے…‘‘
کیرتی نے بڑی بڑی آنکھوں سے مگن کی طرف دیکھا، جن میں سوال تھا —اور کیا بناؤں؟
’’وہی —جو آج کل ہوتا ہے۔‘‘
’’آج کل … کیا ہوتا ہے؟‘‘ کیرتی نے آخر منھ کھولا۔ مشکل سے اس کی آواز سنائی دی، جیسے کینری(Canary) کی چونچ ہلتی دکھائی دیتی ہے، مگر آواز سنائی نہیں دیتی۔
مگن نے کچھ رُکتے، کچھ راستہ پاتے ہوئے کہا ’’اور کچھ نہیں ہوتا تو گاندھی ہی بناؤ، نہرو بناؤ—‘‘ اور پھر جیسے اسے کوئی غلطی لگی اور وہ اپنے آپ کو درست کرتے ہوئے بولا ’’کوئی نیُوڈ…‘‘
’’نیُوڈ؟‘‘
’’ہاں—آج کل لوگ نیوڈ پسند کرتے ہیں۔‘‘
کیرتی چُپ ہو گئی۔ کنواری ہونے کے ناتے وہ شرما سکتی تھی، لجا سکتی تھی مگر یہ سب باتیں اس لڑکی کے لیے تعیش تھیں، اسے فکر تھی تو صرف اس بات کی کہ مگن اس کے وُڈورک کو خریدتا، پیسے دیتا ہے یا نہیں؟ کچھ سوچتے، رُکتے ہوئے اُس نے کہا— ’’مجھے نہیں آتا۔‘‘
’’کیا بات کرتی ہو؟ تمھارے باپ نے بیسیوں بنائے۔‘‘
’’وہ تو—دیوی ماں کے تھے۔‘‘
’’فرق کیا ہے؟‘‘ مگن ٹکلے نے کہا ’’دیوی بھی تو عورت ہوتی ہے۔ تم وہی بناؤ،مگر بھگوان کے لیے کوئی دیومالا اس کے ساتھ نتھی مت کرو۔ انہی حرکتوں سے ہی تو تمھارے پِتا ایسی موت مَر— سرگباش ہوئے۔‘‘
کیرتی نے اپنے جیون کے پچھواڑے میں جھانکا۔ اب جیسے وہ کھڑی نہ رہ سکتی تھی۔ کسی اور خطرے سے اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا، جسے وہی جانتی تھی، کوئی دوسرا نہیں۔ پھر بھی وہ بیروق کرسی پر بیٹھی نہیں، اس کا سہارا لے کر کھڑی ہو گئی۔ اس طرف سے اس کے بدن کے حسین مگر جارحانہ خط دکھائی دے رہے تھے۔ کیا شلپ تھا، جسے اوپر کے نہیں، نیچے کے نارائن نے بنایا تھا۔ مگن لال کے دماغ میں اختیار اور بے اختیاری آپس میں نبرد آزما ہو رہے تھے اور وہ نہیں جانتا تھا کہ برابر والی لڑکی کے اندر بھی وہی چارہ اور لاچاری آپس میں ٹکرا رہے ہیں۔ اس کا منھ سوکھ گیا تھا۔ کوئی گھونٹ سا بھرنے کی کوشش میں وہ بولی۔
’’میں—میرے پاس موڈل نہیں۔‘‘
موڈل؟‘‘مگن نے اس کے پاس آتے ہوئے کہا ’’سیکڑوں ملتے ہیں۔ آج تو کسی بھی جوان، خوب صورت لڑکی کو پیسے کی جھلک دکھاؤ تو وہ ایک دم—‘‘
کیرتی نے کچھ کہا نہیں۔ مگر مگن نے صاف سن لیا ’’پیسے؟‘‘ اور خود ہی کہنے لگا ’’آدمی پیسہ خرچ کرے، تبھی پیسہ بنا سکتا ہے نا۔‘‘
اس بات نے کیرتی کو اور بھی اداس کر دیا۔ اس کی روح، زندگی کے اس جبر کے نیچے پھڑپھڑا رہی تھی۔ پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔ عورت کا یہی عالم تو ہوتا ہے، جو مرد کے اندر باپ اور شوہر کو جگا دیتا ہے۔ چنانچہ مگن نے اپنا ہاتھ بڑھایا تاکہ اسے بازوؤں میں لے لے اور چھاتی سے لگا کر کہے— ’’میری جان، تم فکر نہ کرو… میں جو ہوں۔‘‘ لیکن کیرتی نے اسے جھٹک دیا۔ مگن کٹ گیا۔ اس نے یوں ظاہر کیا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ تُرپ اس کے ہاتھ میں تھا۔ رول ٹاپ پر سے اس نے وُڈورک کو اُٹھایا اور اسے کیرتی کی طرف بڑھاتے ہوئے بولا ’’مجھے اس کی ضرورت نہیں۔‘‘
جب تک کیرتی نے بھی کچھ سوچ لیا تھا۔ اس نے پہلے نیچے دیکھا اور پھر ایکا ایکی سر اوپر اُٹھاتے ہوئے بولی ’’اگلی بار نیوڈ ہی لاؤں گی۔ ابھی تم اسے ہی لے لو۔‘‘
’’شرط ہے؟‘‘ مگن نے مسکراتے ہوئے کہا۔
کیرتی نے سر ہلا دیا۔ مگن ٹکلے کا خیال تھا، کیرتی ساتھ ہنس پڑے گی مگر وہ تو کچھ اور بھی سنجیدہ ہو گئی تھی۔ اس نے رول ٹاپ کو اُٹھایا اور میز کے اندر سے دس روپئے کا  چُرمرا سا نوٹ نکالا اور اُسے کیرتی کی طرف بڑھا دیا — لو! ‘‘
’’دس روپئے؟‘‘ کیرتی نے کہا۔
’’ہاں تمھیں بتایا نا، میرے لیے یہ سب بیکار ہے۔ میں اور نہیں دے سکتا۔‘‘
’’ان سے تو—‘‘ اور کیرتی نے جملہ بھی پورا نہ کیا۔ اس کے اندر گویائی، الفاظ سب تھک گئے تھے۔ پر مطلب صاف تھا۔ مگن سمجھ گیا ’’اس سے تو بوتل بھی نہ آئے گی‘‘ ’’دوا کا خرچ بھی پورا نہ ہو گا‘‘ ’’روٹی بھی نہ چلے گی‘‘ قسم کے فقرے ہوں گے، سب مجبور اور نادار جن کی قے کیا کرتے ہیں۔ اس نے کیرتی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ’’مجھے بس وہ لا دو تو میں اچھے پیسے دوں گا۔‘‘
اور ایسا کہنے میں اس نے ہاتھ کی دو انگلیوں کا چھلاّ بنایا، تھوڑی آنکھ ماری جیسی ڈوم، سازندے نائیکہ کو داد دیتے ہوئے مارتے ہیں۔
کیرتی باہر نکلی تو اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے، وہ تھوڑا ہانپ رہی تھی۔ لوٹنے پہ کیرتی ہمیشہ اُلٹی طرف سے جاتی تھی، حالانکہ اس میں اسے میل ڈیڑھ میل کا چکّر پڑتا تھا۔ وہ نہ چاہتی تھی سراج سے اس کی ٹکّر ہو، لیکن آج وہ اسی طرف سے گئی، جیسے اس میں کوئی مدافعت ابھر آئی تھی۔ مائیکل چلا آیا تھا اور سراج کے ساتھ مل کر کچھ کھا رہا تھا، جب کہ کیرتی منھ اوپر اُٹھائے، ناک پھُلائے ہوئے پاس سے گزر گئی۔ سراج نے کچھ کہا جو مگن کو سُنائی نہ دیا۔ کیرتی میں وہ بغاوت ہی کا جذبہ تھا اور یا پھر وہ ان مصیبت زدہ لوگوں میں سے تھی، جو دشمن کے ساتھ بھی بنا کر رکھنے کی سوچتے ہیں، مبادا انھیں سے کوئی کام آ پڑے۔ شاید یہ عورت کی فطرت کا خاصا تھا جو اس مرد کو بھی اپنے پیچھے لگائے رکھتی ہے جس سے اسے کچھ لینا دینا نہیں۔ صرف اس لیے کہ اسے دیکھ کر ایک بار اس نے سیٹی بجائی تھی، یا اپنی چھاتی پر ہاتھ رکھ کر سرد آہ بھری تھی۔
سراجا ضرور کوئی ’’ایفروڈیزیاک‘‘ کھا رہا تھا۔ ہو سکتا ہے پائے ہوں، جو مائیکل اس کے لیے لایا تھا۔ شاید وہ دونوں مل کر مگن ٹکلے کے پاس آتے اور اُسے کچھ داؤ گھات بتاتے، لیکن مگن نے دکان ہی بڑھا لی تھی۔ دروازوں کو اندر سے بند کرتے ہوئے اس نے کیرتی کے وڈورک کو دیکھا جو بہت عمدہ تھا۔ شیش ناگ کا نچلا حصّہ تو خوبصورت تھا ہی لیکن اوپر کی چتکبری کھال میں اس نے صرف گودنوں سے رنگ بھر دیے تھے۔ وشنو بھی وہی تھا جو کوئی بھی عقیدت مند عورت کسی مرد میں دیکھنا چاہتی ہے۔ البتہ لکشمی ڈھیر سی پڑی تھی اور اس کے بدن کے خط واضح نہ تھے۔ شاید کیرتی لکشمی کو اس کے کسی بھی معنی میں نہ جانتی تھی۔ حالانکہ اسے روچک بنانا کتنا آسان تھا ۔جب عورت پانو دبانے کے لیے جھکتی ہے تو ظاہر ہے اس کے ہاتھ بازو بدن سے الگ ہوتے ہیں اور مخصوص عورت صاف اور سامنے دکھائی دیتی ہے۔ پھر پہلو پہ بیٹھی ہوئی اوپر کی عورت،نیچے والی سے کتنی کٹ جاتی ہے اور مرد کی نظروں کو کیا کیا اونچ نیچ سمجھاتی ہے۔ اگر یہ کہیں،کیرتی خود عورت تھی اس لیے اسے عورت کی بہ نسبت مرد میں زیادہ دل چسپی تھی، تو یہ غلط ہو گا۔ کیوں کہ عورت اپنے حُسن کے سلسلے میں اوّل اور آخر تک خودپرست ہوتی ہے اور جب اس کی یہ خودپرستی اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہو جاتی ہے، تو کسی بھی مرد کی مدد سے اسے جھٹک دیتی ہے۔
مگن نے کیرتی کے وُڈورک کو ایک ہاتھ میں لیا اور دوسرے میں چاقو لے کر اس پر ’’سدہم نمہ‘‘ کے الفاظ کندہ کر دیے اور پھر پچھلے کمرے میں پہنچ گیا،جہاں کچی زمین تھی، جسے کھود کر اس نے وڈورک کو نیچے رکھا، ایک اور موتی کو نکالا جو کیرتی ہی کی بنائی ہوئی تھی اور پھر گڈھے پہ مٹی ڈال کر اس پر کتھے کا پانی چھڑک دیا۔ پرانے بُت کی مٹی جھاڑ کر اُسے دیکھا تو بڑی بڑی دراڑیں اس میں چلی آئی تھیں اور وہ صدیوں پُرانا معلوم ہو رہا تھا۔ اگلے دن جب وہ اسے لے کر ٹورسٹوں کے پاس گیا تو وہ بہت خوش ہوئے۔ مگن نے انھیں بتایا کہ اس کا ذکر کالی داس کے رگھوونش میں آتا ہے۔ رگھو جی نے کونکن کے علاقے میں تُرکٹ نام کا ایک شہر بسایا تھا، جہاں سے یہ بُت برآمد ہوئے۔ کچھ میسور کے چما راجہ وڈیار کے پاس ہیں اور کچھ اپنے پاس۔ چنانچہ اس بُت کو مگن ٹکلے نے ساڑھے پانچ سو روپئے میں بیچ دیا،جس کے لیے اُس نے کیرتی کو صرف پانچ روپئے دیے تھے۔
اس واقعے کے ایک ہفتے کے اندر کیرتی نیوڈ لے آئی۔ وہ بدستور بدحواس تھی۔ اس کی ماں تو بیمار تھی ہی، وہ بھی بیمار ہو گئی تھی۔ اسے قریب قریب نمونیہ ہو رہا تھا۔ وہ کھانس رہی تھی اور بار بار اپنا گلا پکڑ رہی تھی، جس پر اس نے روئی کا لوگڑ ایک پھٹے پُرانے کپڑے کے ساتھ باندھ رکھا تھا۔
کیرتی نے معمول کے طرح سے شلپ کو مگن ٹکلے کے سامنے رکھا ۔اب کے اس نے اُسے لکڑی میں نہیں، پتھر میں بنایا تھا۔ اب وہ پھر امید و بیم کے ساتھ مگن کی طرف دیکھ رہی تھی۔ مگن اگر ناپسندیدگی کا اظہار کرتا تو بہت بڑا جھوٹ ہوتا۔ اس لیے اس نے نہ صرف اسے پسند کیا بلکہ جی بھر کر داد دی۔ اعتراض تو صرف اتنا کہ وہ بہت چھوٹا تھا۔ کاش وہ اسے قد آدم میں بناتی تو نہ صرف اسے بلکہ خود مگن کو بھی بہت فائدہ ہوتا۔
اس نے شلپ یکشی کو ہاتھ میں لیا اور غور سے دیکھا۔ کیرتی پھر بھی سچ مچ کا نیوڈ نہ بنا سکی تھی۔ بُت کے بدن پہ کپڑا تھا جو گیلا تھا۔ کمال یہ تھا کہ اس کپڑے سے اب بھی پانی کے قطرے ٹپکتے ہوئے محسوس ہو رہے تھے۔ وہ کہیں تو بدن کے ساتھ چپکا ہوا تھا اور کہیں علاحدہ ۔ بظاہر چھپانے کے عمل میں وہ عورت کے جسم کو اور بھی عیاں کر رہا تھا۔
شلپ پر سے نظریں ہٹا کر مگن ٹکلے نے کیرتی کی طرف دیکھا اور بے اختیار اس کے منھ سے نکلا۔ ’’اوہ!‘‘ کیرتی جھینپ گئی اور اس جامنی ساری کو آگے کھینچنے، پیچھے سے ڈھانپنے لگی لیکن مگن سب جان گیا تھا کہ وہ برہنہ ہو کر خود کو آئینہ میں دیکھتی اور اُسے بناتی رہی ہے، کے بار اس نے کپڑا بھگو کر اپنے بدن پر رکھا ہو گا، جس سے اُسے سردی ہو گئی اور اب وہ کھانس رہی ہے۔ یہ صرف پیسے ہی کی بات نہیں۔ عورت میں نمائش اور خودسپردگی کا جذبہ بھی تو ہے۔ مگن سب سمجھ گیا تھا مگر تجاہل برتتے ہوئے اس نے پوچھا— ’’ماں کیسی ہے؟‘‘
کیرتی جیسے ایک دم برافروختہ ہو گئی۔ اُسے کھانسی کا  فِٹ سا پڑا اور خود کو سنبھالنے میں خاصی دیر لگی۔ مگن گھبرا گیا تھا اور شرمندہ بھی تھا۔ اس کے بعد سر ہلاتے ہوئے جو اس نے سوال کیا، وہ بہت غیر ضروری تھا— ’’تو موڈل مل گیا تمھیں؟‘‘
کیرتی نے پہلے تو نظریں گرا دیں اور پھر دکان سے باہر اس طرف دیکھنے لگی، جہاں سڑک آسمان کو چھوتی ہوئی ایکا ایکی نیچے گرتی تھی۔ مگن نے چاہا کہ اسے اس کمزوری کے عالم میں پکڑ لے اور وہ داد دے جس کی وہ مستحق تھی اور جو شاید وہ چاہتی بھی تھی مگر اس نے سوچا، ایسے میں دام بڑھ جائیں گے۔ اس نے اپنے دل میں اب کے کیرتی کو سو روپئے دینے کا فیصلہ کیا۔ بوتل اور باقی کی چیزیں شاید سو کی نہ ہوں، مگر وہ سو ہی دے گا۔ اندر ہی اندر وہ ڈر بھی رہا تھا کہ کہیں کیرتی زیادہ کا مطالبہ نہ پیش کر دے۔
’’کیا دام دوں اس کے؟‘‘ اس نے یوں ہی سرسری طریقے سے پوچھا۔ کیرتی نے اُچٹتی نظر سے اس کی طرف دیکھا اور بولی ’’اب کے میں پچاس روپئے لوں گی۔‘‘
’’پچاس؟‘‘
’’ہاں۔ پائی کم نہیں۔‘‘
مگن نے تسکین کے جذبے سے رول ٹاپ اُٹھایا اور چالیس روپئے نکال کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے اور بولا — ’’جو تم کہو —مگر ابھی چالیس ہی ہیں میرے پاس۔ دس پھر لے لینا۔‘‘
کیرتی نے روپئے ہاتھ میں لے لیے اور کہا — ’’اچھا۔‘‘
وہ جانے ہی والی تھی کہ مگن نے اسے روک لیا— ’’سنو‘‘
کیرتی گِت کے بیچ تھم کر اس کی طرف ’’مجھے تھام لو‘‘ کے انداز میں دیکھنے لگی۔ اس کے چہرے پہ اُداسیاں چھٹ جانے کے بجائے کچھ اور کھنڈ گئی تھیں، جب کہ مگن ٹکلے نے پوچھا ’’اتنے پیسوں میں تمھارا کام چل جائے گا؟‘‘
کیرتی نے سر ہلا دیا اور پھر ہاتھ پھیلائے جس کا مطلب تھا — اور کیا کرنا—؟پھر اس نے بتایا۔ ماں کا آپریشن آ رہا ہے، جس کے لیے سیکڑوں روپئے چاہئیں۔
’’میں تو کہتی ہوں‘‘ اس نے کہا اور پھر کچھ رک کر بولی ’’ماں جتنی جلد مر جائے، اُتنا ہی اچھا۔‘‘ اور پھر وہ کھڑی پانو کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ آخر وہ خود ہی بول اُٹھی— ’’ایسے ایڑیاں رگڑنے سے تو موت اچھی ہے۔‘‘
جب مگن نے اس سے آنکھ نہ ملائی تو کیرتی اٹھارہ اُنیس برس کی لڑکی کے بجائے پینتیس چالیس برس کی بھر پور عورت نظر آنے لگی جو زندگی کا ہر وار اپنے اوپر لیتی اور اسے بیکار کر کے پھینک دیتی ہے۔
’’ایک بات کہوں‘‘ مگن ٹکلے نے پاس آتے ہوئے کہا ’’تم مِتھن بناؤ، آپریشن کا سب خرچا میں دوں گا۔‘‘
’’میتھن؟‘‘ کیرتی نے کہا اور لرز اٹھی۔
’’ہاں‘‘ مگن بولا ’’اس کی بہت زیادہ مانگ ہے۔ ٹورسٹ اس کے لیے دیوانے ہوتے ہیں۔‘‘
’’لیکن—‘‘
’’میں سمجھتا ہوں۔‘‘ مگن نے سر ہلاتے ہوئے کہا ’’تم نہیں جانتیں تو ایک بار کھجوراہو چلی جاؤ، اور دیکھ لو۔ میں اس کے لیے تمھیں پیشگی دینے کو تیار ہوں۔‘‘
’’تم؟‘‘ کیرتی نے نفرت سے اس کی طرف دیکھا اور پھر کچھ دیر کے بعد بولی ’’تم تو کہہ رہے تھے، تمھارے پاس اور پیسے نہیں؟‘‘
مگن نے فوراً جھوٹ تراش لیا
’’میرے پاس سچّی پیسے نہیں‘‘ وہ بولا ’میں نے دکان کا کرایہ دینے کے لیے کچھ الگ رکھے تھے…‘‘
پھر اس نے پیسے دینے کی کوشش کی، مگر کیرتی نے اپنے زعم میں نہ لیے اور وہاں سے چلی گئی۔ مگن ٹکلے نے لوٹ کر ’’یکشی‘‘ کو دیکھا اور پھر ایک چھوٹی سی ہتھوڑی لے کر اس کی ناک توڑ دی۔ پھر ایک بازو توڑا۔ پھر ٹانگ توڑی اور اس کے سر کے سنگار پر ہلکی ہلکی ضربیں لگائیں، جس سے کچھ کرچیں گریں۔ پھر اندر جا کر اس نے اسے رسّی میں باندھا اور نمک کے تیزاب میں ڈبو دیا۔ دھوئیں کے بادل سے اُٹھے۔ مگن نے رسّی کو کھینچا اور یکشی کو نکال کر پانی میں ڈال دیا۔ اب جو اُسے نکالا تو ’’یکشی‘‘ کے خد و خال دھندلے ہو گئے تھے اور کہیں کہیں بیچ میں سوراخ چٹاخ سے پڑ گئے تھے۔ اب وہ ہزار ایک روپئے میں بِکنے کے لیے تیار تھی۔
اب کے کیرتی جو شلپ لائی وہ متھن ہی تھا۔ اور قد آدم۔ وہ ایک بوری میں بندھا ہوا تھا اور ٹھیلے پر آیا تھا ۔ کچھ مزدوروں نے اُٹھا کر مگن ٹکلے کی دکان پر رکھا۔ پھر اپنی مزدوری لے کر وہ لوگ چلے گئے۔
کیرتی اور خود کو تنہا پاکر، تیز سانسوں کے بیچ مگن ٹکلے نے بوری کی رسّیاں کاٹیں، اور کچھ وارفتگی سے ٹاٹ کو شلپ پر سے ہٹایا۔ اب شلپ سامنے تھا۔ پرفیکٹ… مگن نے اسے دیکھا تو اس کے گلے میں لعاب سوکھ گیا۔ اس کا خیال تھا کہ کیرتی اس کے سامنے اس شلپ کو نہ دیکھے گی مگر وہ وہیں کھڑی تھی۔ اس کے سامنے، کسی بھی ہیجان سے عاری۔ شلپ میں کی عورت تکمیل (Orgasm) کو پہنچ رہی تھی،جب کہ مرد خود رفتگی کے عالم میں اُسے دونوں کاندھوں سے پکڑے ہوئے تھا، جسے مگن ٹکلے نے توجہ سے نہ دیکھا۔ وہ شاید اسے فرصت میں دیکھنا چاہتا تھا۔
’’کتنے پیسے چاہئیں، آپریشن کے لیے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’آپریشن کے لیے نہیں۔ اپنے لیے۔‘‘
’’اپنے لیے؟ ماں—‘‘
’’مر گئی— کوئی ہفتہ ہوا۔‘‘
مگن نے اپنے چہرے بہ دُکھ اور افسوس کے جذبے لانے کی کوشش کی، مگر شاید کیرتی نہ چاہتی تھی۔ اس کے ہونٹ ویسے ہی بھنچے ہوئے تھے۔ وہ ویسے ہی اُداس تھی جب کہ اس نے کہا ’’میں اس کا ہزار روپیہ لوں گی۔‘‘
مگن بھونچکا سا رہ گیا۔ اس کی زبان میں لکنت تھی، جب اس نے کہا۔ ’’اس کے ہزار روپئے بھی کوئی دے سکتا ہے؟‘‘
’’ہاں‘ کیرتی نے جواب دیا۔ ’’میں بات کر کے آئی ہوں… شاید مجھے زیادہ بھی مل جائیں، لیکن میں نے تم سے وعدہ کیا تھا۔‘‘
’’میں تو … میں تو پانسو ہی دے سکتا ہوں۔‘‘
نہیں‘‘ اور کیرتی نے مزدوروں کے لیے باہر دیکھنا شروع کر دیا۔ مگن نے اسے روکا— ’’سو ایک اور لے لو۔‘‘
’’ہزار سے کم نہیں۔‘‘
مگن نے حیران ہو کر کیرتی کی طرف دیکھا جس کے آج تیور ہی دوسرے تھے۔ کیا وہ کھجوراہو گئی تھی؟ ٹورسٹوں سے ملی تھی؟ کسی بھی قیمت پہ کلاکار کو اس کی مارکیٹ سے جدا رکھنا چاہیے… مگر خیر… اس نے رول ٹاپ اٹھایا اور آٹھ سو کے نوٹ گن کر کیرتی کے سامنے رکھ دیے۔ کیرتی نے جلدی سے گِنے اور اس کے منھ پر پھینک دیے۔
میں نے کہا نا۔ ہزار سے کم نہ لوں گی۔‘‘
’’اچھا— نو سو لے لو۔‘‘
’’نہیں ۔‘‘
’’ساڑھے نو سو — نو سو پچھتّر …‘‘ اور پھر کیرتی کی نگاہوں میں کوئی عزم دیکھ کر اس نے سو سو کے دس نوٹ اس کے ہاتھ میں دے دیے، اور نشے کی حالت میں متھن کی طرف لپک گیا۔ کیرتی کھڑی تھی — جیسے وہ اپنے فن کی داد لینے کے لیے ٹھٹک گئی تھی۔ مگن نے متھن میں کی عورت کی طرف دیکھا جو پھر کیرتی تھی۔ اس کی آنکھ میں آنسو کیوں تھے؟ کیا وہ  لذّت کی گراں باری تھی یا کسی جبر کا احساس؟ کیا وہ دکھ اور سکھ، درد اور راحت کا رشتہ تھا جو کہ پوری کائنات ہے؟ پھر اس نے مرد کی طرف دیکھا جو اوپر سے لطیف تھا مگر نیچے سے بے حد کثیف۔ کیوں، کیرتی نے کیوں مرد— انسان کی ’’حماریت‘‘ پہ زور دیا تھا؟… یہ متھن ہے… مگر وہ متھن تو نہیں، جو پُرش اور پرکرتی میں ہوتا ہے…؟ ٹھیک ہے۔ اُلٹا زیادہ پیسے ملیں گے
مگن ٹکلے نے اوپر کی بتی کو کھینچ کر پھر مرد کی طرف دیکھا اور بول اُٹھا— ’’یہ —میں نے اسے کہیں دیکھا ہے۔‘‘
کیرتی نے کوئی جواب نہ دیا۔
’’تم—‘‘ مگن نے جیسے پتہ پاتے ہوئے کہا ’’تم سراج کے ساتھ باہر گئی تھیں؟‘‘
کیرتی نے آگے بڑھ کر زور سے ایک تھپّڑ مگن ٹکلے کے منھ پر لگا دیا اور نوٹ ہاتھ میں تھامے دکان سے نکل گئی۔
٭٭٭

No comments:

Post a Comment

Labels

aa ki kahawtain (13) Aabi Makhnavi (4) Aadam Shair (6) Aan Ziban or Jan (2) Abdul Hameed Adam (2) Acceptance (3) Afghan (1) Africa (2) afzal rao gohar (4) Ahmad Faraz (137) Ahmad mushtaq (23) Ahmad nadeem qasmi (12) Ahmed Faraz (5) Al Aula (1st Year) (6) alama semab akbar abadi (32) Aleppo (2) alif ki kahawtain (8) Allama Muhammad Iqbal (82) andra warma (2) Answer (4) anwar masuod (2) Auliya Allah (2) Aurat (6) aziz ajaz (3) Baa ki kahawtain (18) babu gopinath (2) Bahadur Shah Zafar (2) bail or gadha (2) band e quba (1) bano qudsia (3) barish (30) Beautiful Urdu Barish Ghazal (23) Beautiful Urdu poetry By Allama Semab Akbar Abadi (29) Bismil Azeem Abadi (18) Books (11) brautifull Urdu Poetries by parveen shakir (3) cha ki kahawtain (10) Children (2) China (2) chor (5) College (3) daal ki kahawtain (10) Dagh Dehlawi (118) Democracy (2) Democracy & Pakistan (2) dhal ki kahawtain (2) DHRAAM (1) dil (2) Divorce (10) download (7) Eain ki kahawtain (2) Education (5) Eid Ka Chand (3) elam (5) eman (3) English (142) English PROVERBS (96) Faiz Ahmad Faiz (21) faraiz (6) Fatawa (14) Finance (7) gaaf ki kahawtain (8) geet (52) ghazal (1279) Ghazal naaz ghazal (2) Ghazals by mirza asadullah ghalib (123) Ghulam Hussain (2) Ghulam Ibn e Sultan (5) girl (3) ha ki kahawtin (3) haa ki kahawtain (4) Hadisa (2) hadisain (223) Hajj (3) halaku khan (2) Halima Saadia (2) Hasrat Mohani (2) haya (4) Hazar Al Ebaha (3) Hazrat Abu Bakr Siddiq (2) hijab (13) hikayaat (48) history (35) huqooq (2) Ibn e Insha (87) ibraheem dahlvi zooq (2) iftkhar arif (2) Imran Sereis Novels (8) India (3) intkhab Ahmad nadeem qasmi (7) Intzar hussain (2) Ishq (3) islamic (319) Islamic Books (8) Islamic Poetries (10) Islamichistory (18) Janazah (2) Jawab (3) jeem ki kahawtain (13) Jihad (2) jumma (2) kaf ki kahawtain (15) karam hadri (2) khaa ki kahawtin (4) Khawaja Haider Ali aatish (2) king (6) Krishn Chander (5) Krishna Chander (6) laam ki kahawtain (4) Letter (2) Love (5) maa (9) Madrasa (3) Maka Zunga (2) Makrohat (3) Manzoor Hussain Tuor (2) marriage (2) Masnoon Duain (2) Maulana Faiz ul Bari sab (2) Mazameen (96) Mazhar Kaleem (9) Mazhar ul Islam (3) meem ki kahawtain (12) Menses (3) mera jee (71) mir taqi mir (252) mirza asadullah ghalib (126) mohsin naqvi (12) molana tajoor najeeb abadi (2) molvi (6) mufsdat (2) muhammad bilal khan (2) mukalma (2) Munshi Prem Chand (4) Musharraf Alam zauqi (6) muskrahat (2) Mustahabbat (3) muzaffar warsi (3) naatain (8) namaaz (14) nasir kazmi (5) nikah (5) noon ki kahawtain (5) Novels (15) Novels Books (11) pa ki kahawtain (8) Pakistan (4) parveen shakir (50) poetry (1309) Poetry By Ahmed Fawad (41) Professor Ibn Kanwal (4) PROVERBS (370) qaaf ki kahawtain (2) qateel shafai (5) Question (3) Qurbani (2) ra ki kahawtain (3) Raees Farogh (27) Rajinder Singh Bedi (39) Reading (2) Rozah (4) Saadat Hasan Manto (39) sabaq aamoz (55) Sabolate Aager (2) saghar nizami (2) saghar Siddiqui (226) Sahih Bukhari Sharif (78) Sahih Muslim Shareef (4) Sahih Muslim Sharif (48) saifuddin saif (2) Salma Awan (11) Samaryab samar (4) Sarwat Hussain (5) Saudi Arabia (2) sauod usmani (2) Sawal (3) School (3) seen ki kahawtain (10) Shakeel Badauni (2) sheen ki kahawtain (2) sirat al nabi (4) Sister (2) Society (7) Stop adultery (2) Stories (218) Students (5) Study (2) Sunan Abu Daud Shareef (39) Sunan Nasai Shareef (49) Sunnat (5) syed moeen bally (2) Syeda Shagufta (6) Syrian (2) ta ki kahawtain (8) Taharat (2) Tahreerain (100) Taqdeer (2) The Holy Quran (87) toba (4) udru (14) UMRAH (3) University (2) urdu (239) Urdu Beautiful Poetries By Ahmed Faraz (44) URDU ENGLISH PROVERBS (42) Urdu Poetry By Ahmed Faraz (29) Urdu Poetry By Dagh Dehlawi (117) Urdu poetry By Mir Taqi Mir (171) Urdu Poetry By Raees Farogh (27) Urdu potries By Mohsin Naqvi (10) URDU PROVERBS (202) urdu short stories (151) Urdu Short Stories By Aadam Shair (6) Urdu Short Stories by Ghulam Hussain (2) Urdu Short Stories by Ishfaq Ahmed (2) Urdu Short Stories by Krishn Chander (5) Urdu Short Stories by Krishna Chander (6) Urdu Short Stories by Munshi Prem Chand (2) Urdu Short Stories By Professor Ibn Kanwal (4) Urdu Short Stories by Rajinder Singh Bedi (39) Urdu Short Stories By Saadat Hasan Manto (5) Urdu Short Stories By Salma Awan (11) Urdu Short Story By Ghulam Ibn e Sultan (5) Urdu Short Story By Ibn e Muneeb (11) Urdu Short Story By Mazhar ul Islam (2) Urdu Short Story By Musharraf Alam zauqi (6) Valentine Day (9) wadu (3) wajibat (4) wajida tabassum (2) waqeaat (59) Wasi Shah (28) wow ki kahawtain (2) writers (2) Wudu (2) yaa ki kahawtain (2) yaer (2) za ki kahawtain (2) Zakat (3) zina (10)