راجندر سنگھ بیدی
اب اسے ان کالی،بھوری راہوں پہ چلنے سے کوئی ڈر نہ
آتا تھا، جہاں بے شمار گڑھے تھے، جن میں کالا پانی، بمبئی کے اس صنعتی شہر کی میل
ہمیشہ جمع رہتی تھی اور کبھی تہ پہ تہ بیٹھتی۔ بے شکل سے پتھّر، اِدھر سے اُدھر
جیسے شوقیہ پڑے تھے۔ بے کار، آخری روڑا ہونے کے لیے—اور وہ — شروع کے دن جب
ٹانگیں کانپتی تھیں اور تنکے بھی روکنے میں کامیاب ہو جاتے تھے، ایسا معلوم ہوتا
تھا کہ گلی کے موڑ پہ دیسی صابن کے بڑے بڑے چاک بنانے والا اور اس کے پڑوس میں کا
حجّام دیکھ رہے ہیں، اور برابر ہنس رہے ہیں۔ کم سے کم رو بھی نہیں رہے ہیں۔ پھر
’باجو‘ کا کوئیلے والا، جو آپی تو شاید اس چکلے میں کبھی نہ گیا تھا، اس پہ بھی اس
کا منھ کالا تھا…
بغل میں پہلے مالے پہ کلب تھی، جہاں چوری کی رَم
چلتی تھی اور یاری کی رَمی۔ اس کی کھڑکیاں کسی یوگی آنکھوں کی طرح سے باہرکی بجائے
اندر من کے چکلے میں کھلتی تھیں اور ان میں سگریٹوں کے دھوئیں کی صورت میں آہیں
نکلتی تھیں۔ لوگ یوں تو جوئے میں سیکڑوں کے ہاتھ دیتے تھے، مگر سگریٹ ہمیشہ گھٹیا
پیتے تھے — بلکہ بیڑی، صرف بیڑی، جس کا جوئے کے ساتھ وہی تعلق ہوتا ہے جو پنسلین
کا آتشک سے… یہ کھڑکیاں اندر کی طرف کیوں کھلتی تھیں؟ نہ معلوم کیوں؟ مگر کوئی خاص
فرق نہ پڑتا تھا،کیونکہ اندر کے صحن میں آنے والے مرد کی صرف چھایا ہی نظر آتی، جس
سے معاملہ پٹائی ہوئی لڑکی اسے اندر لے جاتی، بٹھاتی اور ایک بار ضرور باہر آتی۔
نل پر سے پانی کی بالٹی لینے، جو صحن کے عین بیچوں بیچ لگا ہوا تھا اور دونوں طرف
کی کھولیوں کی طرح طرح کی ضرورتوں کے لیے کافی تھا۔ پانی کی بالٹی اُٹھانے سے پہلے
لڑکی ہمیشہ ہمیشہ اپنی دھوتی یا ساری کو کمر میں کستی اور گاہک لگ جانے کی اکڑ میں
کوئی نہ کوئی بات اپنی ہم پیشہ بہن سے ضرور کہتی—اے گرجا! جرا چاول دیکھ لینا،
میرے کو گاہک لگا ہے … پھر وہ اندر جا کر دروازہ بند کر لیتی۔ تبھی گرجا سندری سے
کہتی—کلیانی میں کیا ہے ری،آج اسے دوسرا کسٹمر لگا ہے؟ لیکن سندری کے بجائے جاڑی
یا کھُرسید، جواب دیتی —— اپنی اپنی قسمت ہے نا؟… تبھی کلیانی والے کمرے سے زنجیر
لگنے کی آواز آتی اور بس۔ سندری ایک نظر بند دروازے کی طرف دیکھتی اور اپنے سنے
ہوئے بالوں کو چھانٹتی، تولیے سے پونچھتی ہوئی گنگنانے لگتی —’رات جاگی رے بلم،
رات جاگی…، اور پھر ایکا ایکی گرجا سے مخاطب ہو اُٹھتی— اے گرجا! کلیانی کے چاول
اُبل رہے ہیں۔ دیکھتی نہیں کیسی گڑ گڑ کی آواز آ رہی ہے۔ اس کے برتن سے؟ اور پھر
تینوں چاروں لڑکیاں مل کر ہنستیں اور ایک دوسری کے کولھے میں چپّے دینے لگتیں۔ تبھی
گرجا بلبلا اُٹھتی اور کہتی—ائیا جور سے کیوں مارا، رنڈی! جانتی ہے، ابھی تک دُکھ
رہا ہے میرا پھُول؟ کان کو ہاتھ لگایا، بابا! میں تو کیا میری آل اولاد بھی کبھی
کسی پنجابی کے ساتھ نہ بیٹھے گی۔ پھر گرجا بغل کی کھولی میں کسی چھوکری کو آواز
دیتی—
گنگی تیرا پوپٹ کیا بولتا—؟
گنگی کی شکل تو نہ دکھائی دیتی، صرف آواز آتی—میرا
پوپٹ بولتا، بھج من رام، بھج من رام …
—مطلب گنگی کو یاتو سر میل ہے اور یا پھر کوئی
کسٹمرنہیں لگا۔
مہی پت لال اب کے مہینوں کے بعد ادھر آیا ہے۔ بیچ
میں منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے وہ یہاں سے کچھ ہی فرلانگ دور ایک نیپالی لڑکی چونی
لا کے پاس چلا گیا تھا اور اس کے بعد چھیانوے نمبر کی ایک کرشچین چھوکری میں پھنس
گیا، جس کا اصلی نام تو کچھ اور تھا لیکن وہاں کی دوسری لڑکیاں اور دلاّل اسے
اولگا کے نام سے پکارتے تھے۔ ادھر کلیانی کو کچھ پتہ بھی نہ تھا، کیوں کہ اس دھندے
میں تو دوچار مکانوں کا فاصلہ بھی سیکڑوں میل کا ہوتا ہے۔ لڑکیاں زیادہ سے زیادہ
پکچر دیکھنے کو نکلتی تھیں اور پھر واپس … جس منھ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مہی پت
دوسری لڑکیوں کے پاس چلا گیا تھا، اسی کے لیے اس اڈّے پر لوٹ آیا۔ لیکن یہ بات طے
تھی کہ اتنے مہینوں کے بعد وہ کلیانی کو بھول چکا تھا۔ حالانکہ ’ملک‘ جانے کے لیے
اس نے کلیانی کو دو سو روپئے بھی دیے تھے، تب شاید نشے کا عالم تھا، جیسا کہ اب
تھا۔ بیئر کا پورا پیگ پی جانے کے کارن مہی پت لال کے دماغ میں کسی اور ہی عورت کی
تصویر تھی، اور وہ بھی نا مکمل۔ کیونکہ اسے مکمّل تو مہی پت ہی کو کرنا تھا—ایک
مصور کی طرح سے، جو کہ مرد ہوتا ہے اور تصویر،جو کہ عورت ہوتی ہے…
اندر آتے ہی مہی پت نے صحن کے پہلے پیرا پٹ کو
پھلانگا۔ تین چار سیڑھیاں نیچے اُترا— لوگ سمجھتے ہیں پاتال، نرک کہیں دور، دھرتی
کے اندر ہیں۔ لیکن نہیں جانتے کہ وہ صرف دو تین سیڑھیاں نیچے ہیں۔ وہاں کوئی آگ جل
رہی ہے اور نہ اُبلتے، کھولتے ہوئے کنڈ ہیں۔ ہو سکتا ہے سیڑھیاں اُترنے کے بعد پھر
اسے کسی اوپر کے تھڑے پہ جانا پڑے، جہاں سامنے دوزخ ہے، جس میں ایسی ایسی اذیتیں
دی جاتی ہیں کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
سیڑھیاں اُترنے کے بعد، صحن میں پانو رکھنے کے
بجائے مہی پت لال کھولیوں کے سامنے والے تھڑے پہ چلا گیا، کیونکہ پکا ہونے کے
باوجود صحن میں ایک گڑھا تھا، جس میں ہمیشہ ہمیشہ پانی جمع رہتا تھا۔ برس ڈیڑھ برس
پہلے بھی یہ گڑھا ایسا تھا اور اب بھی ایسا ہی۔ لیکن گڑھے کے بارے میں اتنا ہی
کافی ہے کہ اس کا پتہ ہو۔ اوپر صحن کے کھلے ہونے کی وجہ سے دشمی کا چاند گڑھے کے
پانی میں جھلملا رہا تھا، جیسے اُسے میل، سر میل کے ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
البتہ نل سے پانی کا چھینٹا اس پر پڑتا تو چاند کی چھبی کانپنے لگتی، پوری کی پوری …
کچھ گاہک لوگ گرجا، سندری اور جاڑی کو یوں ٹھونک
بجا کے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کچّے پکّے گھڑے ہوں۔ ان میں سے کچھ اپنی جیبیں ٹٹول
رہے تھے۔ مستری جاڑی کے ساتھ جانا چاہتا تھا کیونکہ وہ گرجا، سندری، کھُرسید سے
زیادہ بدصورت تھی، مگر تھی آٹھ اینٹ کی دیوار۔ حیرانی تو یہ تھی کہ لڑکیوں میں سے
کسی کو حیرانی نہ ہو رہی تھی۔ وہ مرد اور اس کے پاگل پن کو اچھی طرح سے جانتی
تھیں۔ مہی پت نے سندری کو دیکھا جو ویسے تو کالی تھی، مگر عام کونکنی عورتوں کو
طرح تیکھے نقش نینوں والی۔ پھر کمر سے نیچے اس کا جسم، ’باپ رے‘ ہو جاتا تھا، تبھی
مہی پت کے کرتے کو کھینچ پڑی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو سامنے کلیانی کھڑی تھی اور
ہنستے ہوئے اپنے دانتوں کے موتی رول رہی تھی۔ مگر وہ دُبلی ہو گئی تھی۔ کیوں؟ نہ
معلوم کیوں؟ چہرہ یوں لگ رہا تھا، جیسے دو آنکھوں کے لیے جگہ چھوڑ کر کسی نے ڈھولک
پہ چمڑہ مڑھ دیا۔ چونکہ عورت اور تقدیر ایک ہی بات ہے، اس لیے مہی پت کلیانی کے
ساتھ تیسری کھولی میں چلا گیا۔
کلب گھر کی کھڑکی میں سے کسی نے جھانکا اور اوبھ
کر بساط اُلٹ دی۔ کلیانی نے باہر آ کر نل پہ بالٹی بھری، دھوتی کو کمر میں کسا اور
آواز دی—او گرجا، تھوڑا ہمارا گھڑی سنبھالنا اور پھر وہ پانی لے کر کھولی میں چلی
گئی…
پاس کی کھولی سے میڈم کی آواز آئی— ایک ٹیم کا، دو
ٹیم کا؟
اندر کلیانی نے مہی پت کو آنکھ ماری اور میڈم والی
کھولی کی طرف دیکھتی ہوئی بولی۔ ایک ٹیم، اور پھر اس نے پیسوں کے لیے مہی پت کے
سامنے ہاتھ پھیلا دیا، جسے پکڑ کر مہی پت اسے اپنی طرف کھینچنے لگا۔ پھر اُٹھ کر
اُس نے پان سے پٹی، لال لال مہر سی کلیانی کے ہونٹوں پہ لگادی جسے دھوتی کے
پلو سے پونچھتی ہوئی وہ ہنسی — اتنے بے صبر؟
اور پھر ہاتھ پھیلا کر کہنے لگی — تم ہم کو تیس
روپئے دے گا، پر ہم میڈم کو ایک ٹیم کا بولے گا۔ تم بھی اس کو نہیں بولنے کا— آں؟
مہی پت نے ایسے ہی سر ہلا دیا — آں
بدستور ہاتھ پھیلائے ہوئے کلیانی بولی — جلّی
نکال۔
پیسے؟ — مہی پت بولا۔
کلیانی نے اب کے رسم نہیں ادا کی، وہ سچ مچ ہنس
دی۔ نہیں، وہ شرما گئی۔ ہاں، وہ دھندا کرتی تھی۔ اور شرماتی بھی تھی۔ کون کہتا ہے،
وہاں عورت عورت نہیں رہتی؟ وہاں بھی حیا اس کا زیور ہوتا ہے اور حربہ — جس سے وہ
مرتی ہے اور مارتی بھی۔ مہی پت نے تیس روپئے نکال کر کلیانی کی ہتھیلی پر رکھ دیے۔
کلیانی نے ٹھیک سے گِنا بھی نہیں۔ اس نے تو بس پیسوں کو چوما، سر اور آنکھوں سے
لگایا، بھگوان کی تصویر کے سامنے ہاتھ جوڑے اور میڈم کو ایک ٹائم کے پیسے دینے اور
اپنے حصّے کے پانچ لے کر رکھنے، اندر کے دروازے کی طرف سے اور بھی اندر چلی گئی۔
مہی پت کو جلدی تھی۔ وہ بے صبری سے دُرگا میّا کی تصویر کو دیکھ رہا تھا، جو شیر
پہ بیٹھی تھی اور جس کے پانو میں راکھشس مرا پڑا تھا۔ دُرگا کی درجنوں بھجائیں
تھیں، جن میں سے کسی میں تلوار تھی اور کسی میں برچھی اور کسی میں ڈھال۔ ایک ہاتھ
میں کٹا ہوا سر تھا، بالوں سے تھاما ہوا۔ اور مہی پت کو معلوم ہو رہا تھا، جیسے وہ
اس کا اپنا سر ہے۔ لیکن دُرگا کی چھاتیاں اس کے کولھے اور رانیں بنانے میں مصوّر
نے بڑے جبر سے کام لیا تھا۔ دیواریں ٹوٹی ہوئی تھیں۔ وہ کوئی بات نہ تھی لیکن ان
پہ لپکتی ہوئی سیل اور اس میں گڈ مڈ کائی نے عجیب بھیانک سی شکلیں بنا دی تھی، جن
سے طبیعت بیٹھ بیٹھ جاتی تھی۔ معلوم ہوتا تھا کہ وہ دیواریں نہیں، تبتی اسکول ہیں،
جن پر نرک اور سورگ کے نقشے بنے ہیں۔ گنہگاروں کو اژدھے ڈس رہے ہیں اور شعلوں کی
لپلپاتی ہوئی زبانیں انھیں چاٹ رہی ہیں۔ پورا سنسار کال کے بڑے بڑے دانتوں اور اس
کے کھوہ ایسے منھ میں پڑا ہے۔
— وہ ضرور نرک میں جائے گا… مہی پت … جانے دو!
کلیانی لوٹی اور لوٹتے ہی اس نے اپنے کپڑے اُتارنے
شروع کر دیے۔
یہ کھیل مرد اور عورت کا ——جس میں عورت کو اذیّت
نہ بھی ہو، تو بھی اس کا ثبوت دینا پڑتا ہے اور اگر ہو تو مرد اُسے نہیں مانتا۔
مہی پت پہلے تو ایسے ہی کلیانی کو نوچتا کاٹتا
رہا۔ پھر وہ کود کر پلنگ سے نیچے اُتر گیا۔ وہ کلیانی کو نہیں، کائنات کی عورت کو
دیکھنا چاہتا تھا، کیونکہ کلیانیاں تو آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں۔ مہی
پت بھی آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں، لیکن عورت وہیں رہتی ہے اور مرد بھی۔کیوں؟ یہ سب
کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ حالانکہ اس میں سمجھ کی کوئی بات ہی نہیں۔
ایک بات ہے ست جگ، ددا پر اور ترتیا جگوں میں تو
پورا نیائے تھا، پھر بھی عورتیں محبت میں کیوں چوری کرجاتی تھیں؟ جب گنکا
ویشیاکیوں تھیں؟ آج تو انیائے ہے— پگ پگ پہ انیائے۔ پھر انھیں کیوں روکا جاتا ہے؟
کیوں ان پر قانون لگائے جاتے ہیں؟ جو روپیہ ٹکسال سے آتا ہے، اُس کی قیمت آٹھ آنے
رہ جاتی ہے۔ افلاس اور وافر پیسے کے میل جول کی جتنی ضرورت آج ہے، تاریخ میں کبھی
ہوئی ہے؟… دبا لیں اسے تاکہ گھر کی لکشمی باہر نہ جائے مگر دولت، پیسہ تو Goddess Bitch ہے، وہ کُتیا بو پہ آئے گی تو جائے گی ہی…
مہی پت کو الجھاوے کی ضرورت تھی، اسی لیے اُسے
کائنات کی عورت کے پیچ و خم کھا گئے۔ اس نے ایک بیئر کے لیے کہا، لیکن اس سے پہلے
کہ کلیانی کا کالا وجود اُٹھ کر لڑکے کو آواز دے، وہ خود ہی بول اُٹھا — رہنے دو،
اور اس نظارے کو دیکھنے لگا جو نشے سے بھی زیادہ تھا۔ پھر جانے کیا ہوا، مہی پت نے
جھپٹ کر اتنے زور سے کلیانی کی ٹانگیں الگ کیں کہ وہ بلبلا اُٹھی۔ اپنی بربریت سے
گھبرا کر مہی پت نے خود ہی اپنی گرفت ڈھیلی کر دی۔ اب کلیانی پلنگ پر پڑی تھی او
ر مہی پت گھٹنوں کے بل نیچے فرش پہ بیٹھا ہوا تھا اور اپنے منھ میں زبان کی
نوک بنا رہا تھا… کلیانی لیٹی ہوئی اور چھت کو دیکھ رہی تھی، جہاں پنکھا جالے میں
لپٹا ہوا، ایک آہستہ رفتار سے چل رہا تھا۔ پھر ایکا ایکی کلیانی کو کچھ ہونے لگا۔
اس کے پورے بدن میں مہی پت اور اس کی زبان کے کارن ایک جھرجھری سی دوڑ گئی۔ اور وہ
اس چیونٹے کی طرح سے تلملانے لگی، جس کے سامنے بے رحم بچّے جلتی ہوئی ماچس رکھ
دیتے ہیں…
جبھی اپنے آپ سے گھبرا کر مہی پت اوپر چلا آیا۔ اس
کے بدن میں بے حد تناؤ تھا، اور بجلیاں تھیں، جنھیں وہ کیسے بھی جھٹک دینا چاہتا
تھا۔ اس کے ہاتھوں کی پکڑ اس قدر مضبوط تھی کہ جابر سے جابر آدمی اس سے نہ نکل
سکتا تھا۔ اس نے ہانپتی ہوئی کلیانی کی طرف دیکھا۔ اُسے یقین ہی نہ آ رہا تھا کہ
ایک پیشہ ور عورت کی چھاتیوں کا وزن بھی ایکا ایکی بڑھ سکتا ہے اور ان پہ کے حلقے
اور دانے پھیل کر اپنے مرکز، ابھرے ہوئے مرکز کو بھی معدوم کرسکتے ہیں۔ ان کے
اردگر اور کولھوں اور رانوں پر سیتلا کے داغ اُبھر سکتے ہیں۔ اپنی وحشت میں وہ اس
وقت کائنات کی عورت کو بھی بھول گیا اور مرد کو بھی۔ اسے اس بات کا احساس بھی نہ
رہا کہ وہ خود کہاں ہے اور کلیانی کہاں؟ وہ کہاں ختم ہوتا ہے اور کلیانی کہاں سے
شروع ہوتی ہے؟ وہ اس قاتل کی طرح سے تھا جو چھت پر سے کسی کو ڈھکیل دیتا ہے۔ اسے
یقین ہوتا ہے نا کہ اتنی بلندی سے گر کر وہ بیان دینے کے لیے بھی زندہ نہ رہے گا
اور وہ اس پہ خودکشی کا الزام لگا کر خود بچ نکلے گا۔ ایک جست کے ساتھ اس نے اپنا،
پورے بدن کو کلیانی پہ پھینکنا شروع کر دیا۔
ایک دلدوز سی چیخ نکلی اور بلبلاہٹ سنائی دی۔ سیل
اور کائی سے پٹی دیواروں پہ پنکھوں کے پر اپنی بڑی بڑی پرچھائیاں ڈال رہے تھے۔
جانے کس نے پنکھے کو تیز کر دیا تھا؟ مہی پت پسینے سے شرابور تھا اور شرمندہ بھی،
کیونکہ کلیانی رو رہی تھی، کراہ رہی تھی۔ یا وہ ایک عام کسبی کی طرح سے گاہک کو
لات مارنا نہ جانتی تھی اور یا پھر وہ اتنے اچھے گاہک کو کھو دینے کے لیے تیا ر نہ
تھی۔
سرہانے میں منھ چھپائے، کلیانی اُلٹی لیٹی ہوئی
تھی اور اس کے شانے پھڑکتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ تبھی یہی مہی پت ایک لمحے کے
لیے ٹھٹک گیا۔ پھر آگے بڑھ کر اس نے کلیانی کے چہرے کو ہاتھوں میں لینے کی کوشش
کی، مگر کلیانی نے اسے جھٹک دیا۔ وہ سچ مچ رو رہی تھی۔ اس کے چہرے کو تھامنے میں
مہی پت کے اپنے ہاتھ بھی گیلے ہو گئے تھے۔ آنسو تو اپنے آپ نہیں نکل آتے۔ جب جبر
اور بے بسی خون کی ہولی کھیلتے ہیں، تبھی آنکھیں چھان پٹک کر اس لہو کو صاف کرتی
ہوئی چہرے پہ لے آتی ہیں۔ اگر اسے اپنے ہی رنگ میں لے آئیں تو دنیا میں مرد دکھائی
دے نہ عورت۔
کلیانی نے پھر اپنا چہرہ چھڑا لیا۔
مہی پت پہلے صرف شرمندہ، پھر سچ مچ شرمندہ تھا۔ اس
نے کلیانی سے معافی مانگی اور مانگتا ہی چلا گیا۔ کلیانی نے پلنگ کی چادر سے آنکھیں
پونچھیں اور بے بسی سے مہی پت کی طرف دیکھا۔ پھر وہ اُٹھ کر دونوں بازو پھیلاتے
ہوئے اس سے لپٹ گئی۔ اس کی چوڑی چکلی چھاتی پر اپنے گھنگھریالے بالوں والا کونکنی
سر رکھ دیا۔ پھر اس کی گھگھی بندھ گئی، جس سے نکالنے میں مہی پت
کو اور بھی تلذّذ کا احساس ہوا— اور کلیانی کو بھی۔ اس نے اپنے گھاتک ہی کی پناہ
ڈھونڈ لی۔ مرد تو مرد ہو گا ہی، باپ بھی تو ہے، بھائی بھی تو ہے… عورت عورت ہی
سہی، مگر وہ بیٹی بھی تو ہے، بہن بھی تو ہے…
—— اور ماں …
مہی پت کی آنکھوں میں سچ مچ کے پچھتاوے کو دیکھتے
ہی تصویر اُلٹ گئی۔ اب اس کا سر کلیانی کی چھاتی پر تھا اور وہ اسے پیار کر رہی
تھی ۔ مہی پت چاہتا تھا کہ ہ اس عمل کو انجام پہ پہنچائے بغیر ہی وہاں سے چلا
جائے، لیکن کلیانی اس توہین کو برداشت نہ کرسکتی تھی۔
کلیانی نے پھر اپنے آپ کو اذیت ہونے دی۔ بیچ میں
ایک دو بار وہ درد سے کراہی بھی اور پھر بولی … ہائے میرا پھول … بھگوان کے لیے …
میرے کو سوئی لگوانا پڑتا… پھر آہستہ آہستہ، آہستہ آہستہ اُس نے دکھ اور سکھ سہتے
ہوئے کائنات کے مرد کو ختم کر دیا اور اُسے بچّہ بنا کر گود میں لے لیا۔ مہی پت کے
ہر اُلٹے سانس کے ساتھ کلیانی بڑی نرمی، بڑی ملائمیت اور بڑی ہی ممتا کے
ساتھ اُس کا منھ چوم لیتی تھی، جس سے سگریٹ اور شراب کا تعفّن لپک رہا تھا۔
دھونے دھلانے کے بعد مہی پت نے اپنا ہاتھ کپڑوں کی
طرف بڑھا دیا، مگر کلیانی نے تھام لیا اور بولی —میرے کو بیس روپیہ جیاستی دو۔
بیس روپیہ؟
ہاں— کلیانی نے کہا — ہم تمھارا گن گائے گا۔ ہم
بھولا نہیں، او دن جب ہم ’ملک‘ گیا تھا، تو تم ہم کو دو سو روپیہ روکڑا دیا—
ہم کاردار کا بڑا مندر میں ایک ٹانگ سے کھڑا ہو کے تمھارے واسطے پرارتھنا کیا اور
بولا — میرا مہی کا رکھشا کرنا بھگوان— اس کو لمبا جندگی دینا، پیسہ دینا—
اور کلیانی امید بھری نظروں سے پہلی اور ابکی
پرارتھنا کا اثر دیکھنے لگی۔
مہی پت کے نتھنے نفرت سے پھولنے لگے… پیشہ ور عورت
! پچھلی بار دو سو روپئے لینے سے پہلے بھی ایسے ہی ٹسوے بہائے تھے اس نے— یوں روئی
چلاّئی تبھی، جیسے میں کوئی انسان نہیں جانور ہوں، وحشی ہوں… مگر، اور بیس روپئے؟
پھر رونے کی کیا ضرورت تھی، آنسو بہانے کی؟ ویسے ہی مانگ لیتی تو کیا میں انکار کر
دیتا؟… جانتی بھی ہے، میں پیسے سے انکار نہیں کرتا۔ دراصل انکار مجھے آتا ہی نہیں۔
اسی لیے تو بھگوان کا سو شکر کرتا ہوں کہ میں عورت پیدا نہیں ہوا، ورنہ —— میں تو
یہاں منھ مانگے دینے کا قائل ہوں، جس سے پھر گناہ کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسے ہی
آدمی کا تو انتظار کیا کرتی ہیں یہ — اور جب وہ آتا ہے تو اس سے جھوٹ بولنے، اس کے
کپڑے اُتارنے سے بھی نہیں چوکتیں… کہتی ہیں، میں نے سوچا تھا تم منگل کو جرور آؤ
گے… منگل کو کیا ہے بھائی؟ … منگل کو میں نے بھگوان سے پرارتھنا کی تھی!… یہ رونا
… شاید سچی روئی ہو— میں نے بھی تو ایک اندھے کی طرح سے کہیں بھی چلنے دیا اپنے آپ
کو۔ آؤ دیکھا نہ تاؤ۔ تاؤ کتنا اچھا تھا!… مگر میں نے جو اذیّت دی ہے اُسے، اس سے
نجات پانے کا ایک ہی طریقہ ہے — دے دو روپئے— مگر کیوں؟ پہلے ہی میں نے اُسے دو
ٹیم کے پیسے دیے اور ایک ہی ٹایم بیٹھا۔
مہی پت کے حیص بیص کو دیکھ کر کلیانی نے کہا—کیا
سوچنے کو لگ گیا؟ دے دو نا— میرا بچّہ تم کو دعا دے گا…
تیرا بچّہ؟!
ہاں—تم نے نہیں دیکھا؟
نہیں— کہاں، کس سے لیا؟
کلیانی ہنس دی۔ پھر وہ لجا گئی۔ اس پہ بھی بولی —
کیا مالم کس کا ؟ میرے کو سکل تھوڑا دھیان میں رہتا؟ کیا کھبر تمھارا ہو—
مہی پت نے گھبرا کر کرتے کی جیب میں سے بیس روپئے
نکال کر کلیانی کے ہاتھ پر رکھ دیے، جو ابھی تک برہنہ کھڑی تھی اور جس کی کمر اور
کولھوں پر پڑا ہوا چاندی کا پٹکا چمک رہا تھا۔ ایک ہلکا سا ہاتھ کلیانی کے پیچھے
تھپتھپاتے ہوئے مہی پت نے کچھ اور سوچ لیا۔ کلیانی نے ساری پکڑ کر لپیٹی ہی تھی کہ
وہ بولا— اگر ایک ٹائیم اور بیٹھ جاؤں تو؟ (پیسے دے دیے ہیں)
بیٹھو— کلیانی نے بنا کسی جھجھک کے کہا اور اپنی
ساری اُتار کر پلنگ پر پھینک دی۔ چُلوں چُلوں کرتا ہوا اس کا گوشت سب مار بھول چکا
تھا۔ عقل حیوانی سے بھی تجاوز کر چکا تھا… لیکن مہی پت نے سر ہلا دیا—
اب دم نہیں رہا!
ہوں— کلیانی نے کہا — بہت جن آتا میرے ادھر، پر تم
سا کڑک ہم نہیں دیکھا، سچی— تم جاتا تو بہت دن یہ (ناف) ٹھکانے پہ نہیں آتا۔
… چاند گڑھے پر سے سرک گیا تھا۔ کوئی بالکل ہی
لیٹ جائے، تو اسے دیکھ پائے۔ تبھی کلیانی مہی پت کا ہاتھ پکڑ کر اس کمرے میں لے
آئی، جہاں گرجا، سندری، جاڑی وغیرہ تھیں۔ جاڑی، مستری اور اس کے بعد ایک بوہرے کو
بھی بھگتا چکی تھی۔ ایک سردار سے جھگڑا کر چکی تھی۔ جب مہی پت آیا تو اُس نے
کھُرسید کے کہنی ماری اور بولی — آیا، کلیانی کا مرد!… اس لیے کہ پہلے جب مہی پت
ادھر آیا تھا، تو ہمیشہ کلیانی ہی کے پاس—
کلیانی کے ساتھ کھولی میں آتے ہوئے، مہی پت نے
باتھ روم کے پاس پڑی ہوئی گٹھری کو دیکھا، جس کے پاس بیٹھی ہوئی گرجا اپنے پلّو سے
اُسے ہوا کر رہی تھی۔ کلیانی نے گٹھری کو اُٹھا لیا اور مہی پت کے پاس لاتے ہوئے
بولی—
دیکھو، دیکھو میرا بچّہ…
مہی پت نے اس لجلجے چار پانچ مہینے کے بچّے کی طرف
دیکھا، جسے گود میں اُٹھائے ہوئے کلیانی کہہ رہی تھی— اسی ہلکٹ کو پیدا کرنے، دودھ
پلانے سے ہم یہ ہو گیا۔ کھانے کو کچھ ملتا نہیں نا — اس پہ تم آتا تو —
پھر ایکا ایکی مہی پت کے کان کے پاس منھ لاتے ہوئے
کلیانی بولی —سندری کو دیکھتا؟ تم بولے گا تو ہم اگلے ٹائیم سندری کو لادے گا…
نہیں، نہیں، پرسوں ہم آپی اچھا ہو جائے گا۔ یہ سب جگہ بھر جائے گا نا … اور کلیانی
نے اپنی چھاتی اور اپنے کولھوں کو چھوتے ہوئے کہا— یہ سب، جن سے تم اپنا ہاتھ
بھرتا، اپنا باجو بھرتا—ٹھیک ہے۔ کچھ ہاتھ میں بھی تو آنا مانگتا—سندری کو لینا
ہوئیں گا، تو میرے کو بولنا۔ ہم سب ٹھیک کر دے گا۔ پر تم کو آنے کا میرے پاس۔ گرجا
کے پاس نہیں آنے کا۔ اوجھنا اوں آں بوت کرتا، بوت نکھرا اس کا… اور پھر بچّے کو
اپنے بازوؤں میں جھلاتے ہوئے کلیانی بولی— ہم اس کا نام اچمی رکھا۔
اچمی ۔ اچمی کیا۔
یہ تو ہم کو نہیں مالم— کلیانی نے جواب دیا۔ اور
پھر تھوڑا ہنسی… کوئی آیا تھا کسٹمر، بولا— میرا تیرے کو ٹھہر گیا تو اس کا نام
اچمی رکھنے کا۔ یہ تو ہم نہیں بولنے سکتا، اسی کا ٹھہرا کہ کس کا، پر نام یاد رہ
گیا میرے کو۔ او تو پھر اَیاچ نہیں اور تم بھی کوچھ نہیں بولا… اور پھر اور ہنستے
ہوئے بولی— اچھا، اگلے ٹیم دیکھیں گا…
مہی پت نے ایک نظر اچمی کی طرف دیکھا اور پھر اردگرد
کے ماحول کی طرف۔ یہاں پلے گا یہ بچّہ! بچّہ— میں تو سمجھتا تھا، ان لڑکیوں کے پاس
آتا ہوں تو میں کوئی پاپ نہیں کرتا۔ یہ دس کی آشا رکھتی ہیں، تو میں بیس دیتا ہوں—
یہ بچّہ؟!
—یہاں تو دم گھٹتا ہے … جاتے سمے تو گھٹتا ہی ہے—
مہی پت نے جیب سے پانچ کا نوٹ نکالا اور اسے بچّے
پہ رکھ دیا— یہ اس دنیا میں آیا ہے، اس لیے یہ اس کی دکشنا۔
نہیں نہیں— یہ ہم نہیں لیں گا۔
لینا پڑے گی، تم انکار نہیں کرسکتیں۔
پھر واقعی کلیانی انکار نہ کرسکی۔ بچّے کی خاطر؟
مہی پت نے کلیانی کے کندھے پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا — مجھے معاف کر دو کلیانی۔ میں
نے سچ مچ آج تم سے جانوروں کا سلوک کیا ہے، لیکن مہی پت کی بات سے یہ بالکل
پتہ نہ چلتا تھا کہ اب وہ ایسا نہ کرے گا۔ ضرور کرے گا وہ۔ اسی بات کا تو نشہ تھا
اُسے، بیئر تو فالتو سی بات تھی۔
کلیانی نے جواب دیا— کوئی بات نہیں۔ پر تم آج
کھلاس کر دیا، مار دیا میرے کو۔ اور وہ یہ شکایت کچھ اس ڈھب سے کر رہی تھی، جیسے
مرنا ہی تو چاہتی تھی وہ۔ کیا اس لیے کہ پیسے ملتے ہیں، پیٹ پلتا ہے؟ … نہیں …
ہاں، جب بھوک سے پیٹ دْکھتا ہے، تو معلوم ہوتا ہے، دنیا میں سارے مرد ختم ہو گئے۔
عورتیں مر گئیں…
مہی پت نے پوچھا— یہ اچمی لڑکا ہے یا لڑکی؟
ایک عجیب سی کرن نے کلیانی کے پٹے، مار کھائے ہوئے
چہرے کو منور کر دیا اور وہ چہرے کی پنکھڑیاں کھولتے ہوئے بولی—چھوکرا!
پھر کلیانی نے جلدی اچمی کا لنگوٹ کھولا اور دونوں
ہاتھوں سے اُٹھا کر اچمی کے لڑکے پن کو مہی پت کے سامنے کرتی، اتراتی ہوئی بولی—
دیکھو، دیکھو…
مہی پت کے منھ موڑتے ہی کلیانی نے پوچھا—اب کبھی
آئیں گا؟
جلدی… مہی پت نے گھبرا کر جواب دیا اور پھر وہ
باہر کہیں روشنیوں میں منھ چھپانے کے لیے نکل گیا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment