مجھے فکر و سرِ وفا ہے ہنوز
بادۂ عِشق نارسا ہے ہنوز
بندگی نے ہزار رُخ بدلے
جو خُدا تھا، وہی خُدا ہے ہنوز
او نظر
دل سے پھیرنے والے
دل تُجھی پر مِٹا ہُوا ہے ہنوز
ساری دُنیا ہو، نا اُمید تو کیا
مجھے تیرا ہی آسرا ہے ہنوز
نہ وہ سرمستِیاں نہ فصلِ شباب
عاشقی صبر آزما ہے ہنوز
دل میں تُجھ کو چھُپائے پھرتا ہوں
جیسے تُو میرا مُدّعا ہے ہنوز
آستاں سے
ابھی نظر نہ ہٹا
کوئی تقدیر آزما ہے ہنوز
ہر نَفس میں گُداز سا ہے ہنوز
محوِیت بے سَبب نہیں سیماب
رُوح پر کوئی چھا رہا ہے ہنوز
No comments:
Post a Comment