کیا جانے میں جانا ہے ، کہ جاتے ہو خفا ہو کر
میں جب جانُوں مِرے دل سے چلے جاؤ جُدا ہو کر
تصور آپ کا، کیا کیا فریبِ جلوہ دیتا ہے
کہ رہ جاتا ہُوں میں اکثر، ہم آغوشِ ہوا ہو کر
وہ پروانہ ہُوں، میری خاک سے بنتے ہیں پروانے
وہ دیپک ہُوں، کہ انگارے اُڑاتا ہُوں فنا ہو کر
قیامت تک اُڑے گی دِل سے اُٹھ کر خاک آنکھوں تک
اِسی رستے گیا ہے، حسرتوں کا قافلا ہو کر
تُمھِیں اب دردِ دل کے نام سے گھبرائے جاتے ہو !
تُمھِیں تو دِل میں شاید آئے تھے درد آشنا ہو کر
یُونہی ہم تُم گھڑی بھر کو مِلا کرتے تو بہتر
تھا !
یہ دونوں وقت جیسے روز مِلتے ہیں جُدا ہو کر
یقینی حشر میں سیماب اُن کی دید ہے لیکن !
وہ پھر پردے میں جا بیٹھے اگر جلوہ نما ہو کر؟
No comments:
Post a Comment