ہَمَیں تو
یوں بھی نہ جلوے تِرے نظر آئے
نہ تھا
حجاب، تو آنکھوں میں اشک بھر آئے
ذرا سی دیر میں دُنیا کی سیر کر آئے
کہ لے کے
تیری خبر تیرے بے خبر آئے
اسِیر ہونے کے آثار پھر نظر آئے
قفس سے چھوٹ
کر آئے تو بال و پر آئے
تجھے ملال ہے ناکامیِ نظر کا فضول
نظر میں جو
نہ سمائے وہ کیا نظر آئے
وہ جانتا ہے، میں پابندِ رسم و راہ
نہیں
فضول
ٹھوکریں کھانے کو راہبر آئے
تمام عمر یہ
ناکامیاں قیامت ہیں
کبھی کبھی
تو الٰہی، اُمید بر آئے
جسے تصرفِ
تیرِ نظر نہ ہو معلوم
وہ تیرے
سامنے لے کے دل و جگر آئے
شریکِ قسمتِ تنہائیِ فراق ہوں میں
اجل بھی
کیوں تِرے آنے سے پیشتر آئے
بلائے جاں ہے وہ نصفِ شباب کا عالم
کسی حَسِین
کی جب زلف تا کمر آئے
نگاہِ جلوہ
میں شاید سما گئے سیماب
کہ منتظِر
گئے لوٹے تو منتظَر آئے
No comments:
Post a Comment