نیتشے
نے کہا
وہ سب
پرندے جو اُڑ کے جاتے ہیں فاصلوں میں
کہیں
بہت دور فاصلوں میں
سو ان
کے بارے میں یہ تو سب جانتے ہیں ، آخر کہیں کوئی ایک یا
دوسری
جگہ ایسی آ ہی جاتی ہے، وہ جہاں تھک کے بیٹھ جائیں
وہ کوئی
مستول یا کوئی بنجر چٹان ہوتی ہے، جس کو پاکر وہ
سوچتے ہیں
کہ یہ
بھی کچھ کم نہیں بہت ہے،
مگر
بھلا کون اس حقیقت کو جان کر یہ گماں کرے گا کہ ان سے آگے
وہاں
کشادہ فضا نہیں، یا وہ ایک ایسا مقام ہے، جس سے آگے
پرواز کا
کسی طرح کوئی امکان ہی نہیں ہے
ہمارے
سارے عظیم استاد اور سب پیش رو بھی آخر کہیں پہنچ کر
ٹھہر
گئے تھے
سو ایسا
ہی میرے ساتھ ہو گا
سو ایسا
ہی تیرے ساتھ ہو گا
نئے
پرندے تو آگے ہی جائیں گے
مگر ہاں
یہی
بصیرت یہی یقیں ہم میں اور ان میں مقابلے کا سبب ہے
جو ہم
سے اور ہماری صلاحیت سے بلند ہو کر فضا کی وسعت میں دیکھتا ہے
کہ کچھ
پرندے ہیں ہم سے بڑھ کر جواں توانا
اور ان
توانا جواں پرندوں کے غول کوشاں ہیں آج بھی اس جگہ
جہاں پر
ہم اپنی ساری صلاحیت آزما چکے ہیں
جہاں ہر
اک چیز ہے سمندر
جہاں ہر
اک چیز ہے سمندر
ہم اب
کہاں جائیں
یہ
سمندر
بتاؤ
کیا ہم اسے کبھی پار کرسکیں گے
یہ آرزو
اب کہاں ہمیں لے کے جا رہی ہے
اسی طرف
کیوں
کہ جس
طرف جانے والے انسانیت کے سب جگمگاتے خورشید
چھپ گئے
ہیں
کبھی
ہمارے لئے بھی شاید یہی کہا جائے گا کسی دن
کہ ہم
نے مغرب کی سمت گہرے سمندروں میں سفر کیا تھا
امید یہ
تھی کہ ہم کو مشرق میں اک نئی سرزمیں ملے گی
مگر
مقدر یہ تھا کہ اے دوست
بے
کرانی سے جا کے ٹکرائیں اور ہم پاش پاش ہو جائیں
یا مرے
دوست شاید۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment