ایک عالم ہے کشتہ اس لب کا
الغرض اس پہ دانت ہے سب کا
بخت دشمن بلند تھے ورنہ
کوہکن نے بھی سر کو پھوڑا تھا
دل تاب ٹک بھی لاتا تو کہنے میں کچھ آتا
اس تشنہ کام نے تو پانی بھی پھر نہ مانگا
پائے پر آبلہ سے مجھ کو بنی گئی ہے
صحرا میں رفتہ رفتہ کانٹوں نے سر اٹھایا
گل منھ نہ کھولتا تھا بلبل نہ بولتا تھا
No comments:
Post a Comment