ترے قدموں پہ سر ہوگا، قضا سر پہ کھڑی
ہوگی
پھر اس سجدے کا کیا کہنا انوکھی بندگی ہوگی
نسیم صبح گلشن میں گلوں سے کھیلتی ہو گی
کسی کی آخری ہچکی کسی کی دل لگی ہوگی
تمہیں دانستہ محفل میں جو دیکھا ہو تو مجرم ہوں،
نظر آخر نظر ہے بے ارادہ اٹھ گئی ہوگی
مزا آ جائے گا محشر میں کچھ سننے سنانے کا،
زباں ہوگی ہماری اور کہانی آپ کی ہوگی
سر محفل بتا دوں گا سر محشر دکھا دوں گا،
ہمارے ساتھ تم ہو گے، یہ دنیا دیکھتی ہوگی
یہی عالم رہا پردہ نشینوں کا تو ظاہر ہے،
خدائی آپ سے ہوگی نہ ہم سے بندگی ہوگی
تعجب کیا لگی جو آگ اے سیمابؔ سینے میں،
ہزاروں دل میں انگارے بھرے تھے، لگ گئی ہوگی
No comments:
Post a Comment