مظفر وارثی کی وفات
28 January 2011
کو ہوئی۔
مظفر
وارثی دنیائے سخن کا ایک معتبر نام ہے۔ حمد ہو یا نعت، غزل ہو یا نظم، گیت ہو یا
قطعات، ہر صنف سخن میں انہوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔
مظفر وارثی ۲۰ دسمبر ۱۹۳۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی سکول سے حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء میں لاہور آ کر میٹرک کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ مظفر وارثی کا شمار پاکستان کے نامور نعت خواں اور بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں انہیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
مظفر وارثی نے اپنی شاعری کا آغاز غزلوں، نظموں اور فلمی گیتوں سے کیا۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے مخصوص کر لیا۔ وہ بلاشبہ عہد جدید کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جنہیں غیر ممالک میں بھی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہیں۔ ان کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اور دلکش ہے۔
پاکستان کی مشہور جذبہ حب الوطنی سے سرشار فلم ’’ہمراہی‘‘ میں مسعود رانا کے گائے ہوئے نغمے مظفر وارثی نے لکھے تھے۔
مظفر وارثی ۲۰ دسمبر ۱۹۳۳۳ء کو میرٹھ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم میرٹھ کے ہائی سکول سے حاصل کی۔ ۱۹۴۷ء میں لاہور آ کر میٹرک کیا اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں ملازم ہو گئے۔ مظفر وارثی کا شمار پاکستان کے نامور نعت خواں اور بہترین شاعروں میں ہوتا ہے۔ ۱۹۸۱ء میں انہیں ریڈیو پاکستان کی جانب سے بہترین نعت خواں کا ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۸۸ء میں حکومت پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
مظفر وارثی نے اپنی شاعری کا آغاز غزلوں، نظموں اور فلمی گیتوں سے کیا۔ بعد ازاں انہوں نے خود کو حمدیہ اور نعتیہ کلام کے لیے مخصوص کر لیا۔ وہ بلاشبہ عہد جدید کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جنہیں غیر ممالک میں بھی دلچسپی سے پڑھا اور سنا جاتا ہے۔ ان کی شاعری میں فکر اور سوچ اپنے تمام تر رنگوں میں عیاں ہیں۔ ان کا ہر مجموعہ دوسرے سے بڑھ کر خوبصورت اور دلکش ہے۔
پاکستان کی مشہور جذبہ حب الوطنی سے سرشار فلم ’’ہمراہی‘‘ میں مسعود رانا کے گائے ہوئے نغمے مظفر وارثی نے لکھے تھے۔
٭ کیا کہوں اے دنیا والو! کیا ہوں میں
٭ کرم کی اک نظر ہم پر یا رسول اللہ
ٔ٭ مجھے چھوڑ کر اکیلا کہیں دور جانے والے
٭ یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
نصرت فتح علی خان کا گایا ہوا مشہور حمدیہ کلام ’’کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے‘‘ بھی مظفر وارثی کا لکھا ہوا ہے۔
مظفر وارثی کے حمدیہ اور نعتیہ مجموعوں میں اؒلحمد، لاشریک، نورِ ازل، بابِ حرم، میرے اچھے رسول، دل سے درِ نبی تک، صاحب التاج اور غزلوں اور نظموں کے مجموعوں میں برف کی نائو، کھلے دریچے بند ہوا،راکھ کے ڈھیر میں پھول، لہجہ، تنہا تنہا گزری ہے، دیکھا جو تیرے کھا کے، حصار، ظلم نہ سہنا، لہو کی ہریالی، ستاروں کی آب جو شامل ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی خود نوشت سوانح ’’گئے دنوں کا سراغ‘‘ بھی شائع ہو چکی ہے۔
مظفر وارثی کا ۲۸ جنوری ۲۰۱۱ء بروز جمعہ کو لاہور میں ۷۷ سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
ان کی شاعری کے چند حسین اندازپیش خدمت ہیں۔
کیا بھلا مجھ کو پرکھنے کا نتیجہ نکلا
زخم دل آپ کی نظروں سے بھی گہرا نکلا
دریا
کے کنارے تو پہنچ جاتے ہیں پیاسے
پیاسوں کے گھروں تک کوئی دریا نہیں جاتا
میں
اس زمانے کا منتظر ہوں، زمانہ جب بے مثال ہو گا
ہر ایک مسجد مدینہ ہوگی، ہر اک موذن بلال ہو گا
پکارا
ہے مدد کو بے کسوں نے ہاتھ خالی ہے
بچا لو ڈوبنے سے، یا رسول اللہ
No comments:
Post a Comment