نام
کشور ناہید اور تخلص ناہید ہے۔ ۳؍فروری ۱۹۴۰ء کو بلند شہر(یوپی) میں پیدا ہوئیں۔ایم اے
(معاشیات) پاس کیا۔محکمہ اطلاعات ونشریات کے ادبی مجلہ’’ماہ نو‘‘ کی چیف اڈیٹر کے
منصب پر فائز رہیں۔ بعدازاں پاکستان نیشنل سنٹر ، لاہور کی ریزیڈنٹ ڈائرکٹر رہیں۔
ڈائرکٹر مرکزی اردو سائنس بورڈ، لاہور کے عہدے پر بھی فائز رہیں۔ ا ن کی تصانیف کے
چند نا م یہ ہیں: ’’لب گویا‘‘(غزلیات)، ’’بے نام مسافت‘‘(نظمیں)،
’’گلیاں،دھوپ،دروازے‘‘(نظمیں، نثری نظمیں ،غزلیں)، ’’فتنہ سامانی دل‘‘، ’’علامتوں کے درمیاں‘‘، ’’سیاہ حاشیے میں
گلابی رنگ‘‘، ’’ناوک دشنام‘‘، ’’عورت، خواب اور خاک کے درمیان‘‘، ’’خیالی شخص سے
مقابلہ‘‘، ’’بری عورت کی کتھا‘‘(خودنوشت حالات زندگی)، ’’نازائیدہ بیٹی کے نام‘‘،
’’شناسائیاں، رسوائیاں‘‘۔ ’لب گویا‘ پر ۱۹۶۹ء کا آدم جی ادبی انعام ملا۔ حکومت پاکستان
نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حسن کارگردگی کے تمغے سے نوازا
نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں حسن کارگردگی کے تمغے سے نوازا
....
میری ہم زاد ہے تنہائی میری
ایسے رشتے_ کہاں تهے پہلے
......
وہ اجنبی تھا، غیر تھا، کِس نے کہا نہ تھا
دل کو مگر یقین . . . .کسی پر ہُوا نہ تھا
ہم کو تو . . . . احتیاطِ غَمِ دِل عزِیز تھی
کچھ اِس لیے بھی کم نگہی کا گِلہ نہ تھا
دستِ خیالِ یار سے پُھوٹے شفَق کے رنگ
نقشِ قدم بھی رنگِ حِنا کے سِوا نہ تھا!!
ڈھونڈا اُسے بہت، کہ بُلایا تھا جس نے پاس
جلوہ، مگر کہیں بھی صَدا کے سِوا نہ تھا
کچھ اِس قدر تھی گرمئِ بازارِ آرزُو
دِل جو خریدتا تھا اُسے دیکھتا نہ تھا
آنکھیں اُبل رہی ہیں بہ ایں ضبطِ دردِ غم
دِل میں بجُز حرارتِ غم کچھ رہا نہ تھا
کچھ یُوں بھی زرد زرد سی ناہید آج تھی
کچھ اوڑھنی کا رنگ بھی کِھلتا ہُوا نہ تھا
.....
جب میں نہ ہوں تو شہر میں مجھ سا کوئی تو ہو
دیوار زندگی میں دریچہ کوئی تو ہو
اک پل کسی درخت کے سائے میں سانس لے
سارے نگر میں جاننے والا کوئی تو ہو
دیکھے عجیب رنگ میں تنہا ہر ایک ذات
ان گہرے پانیوں میں اترتا کوئی تو ہو
ڈھونڈوگے جس کو دل سے وہ مل جائے گا ضرور
آئیں گے لوگ آپ تماشا کوئی تو ہو
پھر کوئی شکل بام پہ آئے نظر کہیں
پھر رہگزار عام میں رسوا کوئی تو ہو
کوئی تو آرزوئے فروزاں سنبھال رکھ
ہاں اپنے سر پہ قرض تمنا کوئی تو ہو
ہر دم علاج مہر و وفا ڈھونڈتے رہو
اس تیرگی میں گھر کا اجالا کوئی تو ہو
ناہیدؔ بندشوں میں مقید ہے زندگی
جائیں ہزار بار بلاوا کوئی تو ہو
No comments:
Post a Comment