گ۔ کی
کہاوتیں
( ۱۵ ) گڑ ہو گا تو مکھیاں بہت :
یعنی دولت ہو گی تو آگے پیچھے پھرنے والوں کی کمی نہیں۔
( ۱۶ ) گُڑ سے مرے تو زہر کیوں دیں ؟ :
اگر کوئی کام میٹھی اور
نرم بات کہنے سے ہو سکتا ہے تو سخت کلامی یا گھٹیا طریقے استعمال کرنے کی کیا
ضرورت ہے؟ کہاوت یہی کہہ رہی ہے کہ اگر دشمن گُڑ دینے سے مر سکتا ہے توا س کو زہر
دینے کی مطلق ضرورت نہیں ہے۔
( ۱۷ ) گُڑ کہنے سے منھ میٹھا نہیں ہوتا :
کام کرنے سے ہی ہوتا
ہے،محض باتوں سے نہیں ہوتا۔ اس کی مثال ایسا شخص ہے جو منھ سے گُڑ،
گُڑ کہتا رہے، کام کچھ نہ کرے اور یہ اُمید رکھے کہ ایسا کرنے سے اس کا منھ میٹھا
ہو جائے گا۔
(۱۸) گڑے مُردے اُکھاڑنا :
گڑے مردے یعنی بھولی بسری
پُرانی باتیں اور الزامات۔ ایسی باتوں کو بار بار دہرانا اور
یاد دِلا کر جھگڑے کی بنیاد بنانا دانشمندی نہیں ہے۔
( ۱۹) گُڑ کھائیں ، گلگلوں سے پرہیز :
گلگلے گڑ سے بنائے جاتے ہیں ۔ اگر اصل اور بڑی چیز شوق سے اختیار کر لی
جائے لیکن اس سے نکلی ہوئی چھوٹی اور کمتر چیزوں سے پرہیز کیا جائے تو یہ
بچکانہ بات ہو گی۔ ایسے ہی موقع پر یہ کہاوت کہی جاتی ہے۔
(۲۰) گُڑ نہ دے، گُڑ کی سی بات تو کہہ دے :
یہ کہاوت اس وقت بولی جاتی ہے جب کوئی شخص نا گوار لب
و لہجہ میں اپنی بات کہے جبکہ وہ اُسے نرمی سے بھی دوسروں کی دل آزاری کئے
بغیر کہہ سکتا ہے۔ کہاوت کا مطلب یہی ہے کہ اگر اچھا کام نہیں کر سکتے ہو تو
نہ سہی، کم سے کم اچھی بات تو کہہ دو۔
No comments:
Post a Comment