گ۔ کی
کہاوتیں
(
۲۱) گندم اگر بہم نہ رسدجَو غنیمت است :
یعنی
اگر گیہوں میسر نہ ہو تو جَو کو غنیمت سمجھنا چاہئے گویا اگرانسان کی خواہش
سے کمتر چیز بھی مل جائے تو اس کی ناقدری نہیں کرنی چاہئے بلکہ اللہ کا شکر
ادا کر کے اسے قبول کر لینا چاہئے۔ کبھی کبھی جَو کے بجائے بھُس بھی کہتے ہیں۔
( ۲۲)
گناہ بے لذت :
ہر
گناہ میں کوئی نہ کوئی لذت ہوتی ہے۔ ایسا گناہ جس میں کوئی مزہ ہی نہ
ہو گناہ بے لذت کہلاتا ہے گویا اُس کو کرنے سے کیا فائدہ؟
( ۲۳)
گنبد کی آواز ہے :
کسی
گنبد کے نیچے کھڑے ہو کر دی ہوئی آواز باز گشت( گونج) کی صورت میں
واپس سنائی دیتی ہے۔ اسی کو گنبد کی آواز کہتے ہیں، یعنی جیساکہو گے ویساہی
سنو گے۔
(۲۴) گنگا
نہائے ہوئے ہیں :
یعنی
خود کو بہت نیک اور پارسا ظاہر کر رہے ہیں جیسے ابھی ابھی گنگا نہا کر آئے ہیں۔
ہندوؤں کے عقیدے کے مطابق گنگا میں نہانے سے تمام گناہ دھل جاتے ہیں
اور انسان پاک ہو جاتا ہے۔
(۲۵)
گنڈے دار ہونا :
بر صغیر ہند و پاک میں کم تعلیم یافتہ
طبقہ بیماری یا مصیبت سے بچنے کے لئے آج بھی تعویذ اور گنڈوں پر یقین رکھتا
ہے۔گنڈہ ایک موٹا دھاگا ہوتا ہے جس میں کوئی مولوی یا پنڈت آیات یا اشلوک
پڑھ کر تھوڑے تھوڑے فاصلہ سے گرہ لگا دیتا ہے۔گنڈہ بچہ کی گردن میں
بلاؤں سے محفوظ رکھنے کے لئے باندھ دیا جاتا ہے۔ چونکہ گنڈہ میں
گانٹھیں ہوتی ہیں اس لئے اگر کوئی کام مسلسل نہ کیا جائے تو اس
کو گنڈہ دار کہتے ہیں یعنی رُک رُک کر۔
(۲۶ )
گونگے کا گڑ،کھٹا نہ میٹھا :
گونگا شخص اگر گڑ کھائے تو وہ یہ نہیں بتا
سکتا کہ اس کا مزاکیسا تھا۔ اسی طرح نادان اور کم عقل سے عقل و دانش کی بات کرنا
فضول ہے کیونکہ وہ ان کا فرق نہ سمجھتا ہے اور نہ ہی بتا سکتا ہے۔
No comments:
Post a Comment