گ۔ کی کہاوتیں
( ۳۹ ) گھر سکھ تو باہر سکھ
:
اگر
آدمی کے گھر میں سکون و اطمینان ہو تو وہ باہر بھی خوش رہتا ہے۔اگر گھریلو
زندگی ہی تکلیف دہ ہے تو اس کو کہیں چین نصیب نہیں ہو سکتا۔
( ۴۰ ) گھر کی آدھی، نہ باہر کی
ساری :
اپنے
گھر کی تھوڑی کمائی باہر کی زیادہ سے بہتر ہوتی ہے۔
( ۴۱ ) گھر کی جورو کی چوکسی کہاں
تک :
جورو
یعنی بیوی یا مالکن، چوکسی یعنی چوکیداری۔ مطلب یہ ہے کہ اگر گھر والے ہی چوری
کرنے لگیں تو ان کی نگہبانی اور چوکیداری کرنا بہت مشکل کام ہے۔
( ۴۲) گھر کی کھانڈ کرکری، چوری کا گُڑ
میٹھا :
کھانڈ یعنی کچی شکر۔ اپنے گھر کی شکر
دانتوں میں کرکل کی طرح لگتی ہے لیکن چوری کا گڑ بہت میٹھا معلوم ہوتا
ہے۔ یعنی مفت کا مال اور وہ بھی بے ایمانی سے حاصل کیا ہوا زیادہ مرغوب ہوتا ہے۔
( ۴۳ ) گھر میں نہیں
دانے،بُڑھیا چلی بھنانے :
پرانے زمانے میں چنے، مونگ پھلی
وغیرہ بھوننے کے لئے بازار میں ایک تندور ہوتا تھا جس کو بھاڑ کہتے تھے۔ چند
پیسے لے کر بھڑ بھونجا (بھاڑ کا مالک)چنے وغیرہ بھون دیا کرتا تھا۔ کہاوت میں
ایک بڑھیا کی مثال دی گئی ہے جس کے پاس بھنانے کے لئے کچھ نہیں ہے لیکن وہ
پھر بھی بھڑبھونجے کی دوکان پر پہنچ جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کچھ حاصل نہیں۔ جب
بغیر پوری تیاری کے کوئی کام کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جائے تو یہ کہاوت بولی جاتی
ہے۔
( ۴ ۴) گئے تھے نماز بخشوانے، روزے گلے پڑ
گئے :
کوئی رعایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے
اور رعایت کے بجائے ایک نئے کام کی ذمہ داری سر تھوپ دی جائے تو یہ کہاوت کہی جاتی
ہے۔
No comments:
Post a Comment