ک۔ کی
کہاوتیں
( ۶۰ ) کنواں بیچا ہے، کنویں کا پانی نہیں بیچا :
اس کہاوت کے پیچھے ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ایک شخص نے دوسرے آدمی کے ہاتھ اپنا
کنواں فروخت کر دیا۔ جب وہ آدمی کنویں سے پانی کھینچنے آیا تو اُس شخص
نے اُس کو یہ کہہ کر روک دیا کہ’’ میں نے کنواں بیچا ہے،کنویں
کا پانی تو نہیں بیچا‘‘۔ جھگڑا بڑھا تو کنویں کا خریدار
قاضی ٔ شہر کے پاس فریاد لے کر گیا۔ قاضی نے مقدمہ کی رُوداد سُن کر کہا کہ
’’کنویں کا سابق مالک بات تو صحیح کہہ رہا ہے۔ اس نے واقعی کنویں کا
پانی نہیں بیچا۔ چنانچہ اس کو عدالت کی طرف سے حکم دیا جاتا ہے کہ وہ دو دن
کے اندر کنویں میں سے اپنا پانی نکال لے ورنہ دوسرے کے کنویں
میں اپنا پانی رکھنے کا کرایہ دینا ہو گا۔‘‘ یہ سُن کر کنویں
کے سابق مالک کے ہو ش اُڑ گئے اور اُس نے اُسی وقت ہاتھ جوڑ کر عدالت اور
کنویں کے مالک سے معافی مانگی،کنواں مع پانی کے اس کےسپرد کیا
اور اس طرح گلو خلاصی حاصل کی۔ کہاوت ایسی ہی فضول دلیل کی جانب اشارہ کر رہی ہے۔
( ۶۱ ) کند ہم جنس با ہم جنس پرواز :
یہ کہاوت ایک شعر کا پہلا مصرع ہے۔ اس کا ذکر پہلے آ چکا ہے:
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز کبوتر با کبوتر، با ز با باز
( ہم جنس ہمیشہ اپنے ہی گروہ میں اُڑتے ہیں،کبوتر کبوتروں کے ساتھ
اور باز دوسرے بازوں کے ہمراہ پرواز کرتا ہے۔)
( ۶۲ ) کنجوس مکھی چوس :
یعنی ایسا کنجوس کہ دودھ میں اگر مکھی گر جائے تواس
کو پھینکنے سے پہلے چوس لیتا ہے۔کہاوت میں حقارت اور نفرت کا عنصر غالب ہے۔
(۶۳) کنویں سے نکلے، باولی میں گرے :
باولی یعنی وہ بڑا کنواں جس میں پانی تک پہنچنے کے لئے سیڑھیاں
بنی ہوتی ہیں۔ کوئی ایک مصیبت سے بمشکل بچے اور فوراً ہی اس سے
بڑی مصیبت میں جا پھنسے تو یہ کہاوت بولی جاتی ہے۔ درج ذیل شعر بھی یہی مطلب
ادا کرتا ہے:
ایک مشکل سے تو مر مر کے ہوا تھا
جینا اور یہ پڑ گئی کیسی مرے اللہ نئی
No comments:
Post a Comment