غلام ابن سلطا ن
آج صبح زادو لُدھیک اور گھا سفوکو بنارس کے نواح
میں ایک مندر کے نزدیک ایک میدان میں ہری ہری گھاس پر چلتے دیکھا تو دل میں ایک
ہوک سی اُٹھی کہ یہ سبز قدم یہاں کیسے آ پہنچے۔ یہ نا ہنجار زندگی بھر در در کی
ٹھوکریں کھاتے رہے اور اب ان کی آخری ہچکی بھی ٹھوکر ہی کے وسیلے سے ہو گی۔
کھنڈرات، ویرانو ں، اُجاڑ علاقوں اور خارستان و ریگستان کے مکین یہ کمین پُر سکون
بستیوں کو حزین کرنے کیوں چلے آئے؟یہ چکنے گھڑے جس طرف بھی جاتے ہیں وہاں ذلت اور
تخریب کے کتبے آویزاں ہو جاتے۔ گلشن میں ان کی آمد سے ہر شاخ پر بُوم و شپر کا
بسیراہو جاتا۔ شہر کے سب لوٹے اور لُٹیرے اِن چکنے گھڑوں سے آتش سیال حاصل کرتے
اور جگر کی آگ بُجھاتے۔ چلتے پھرتے ہوئے یہ مُردے ہمیشہ کفن پھاڑ کر ہنہناتے رہتے
اور اپنی بے حسی بے غیرتی اور بے ضمیری پر دندناتے پھرتے تھے۔ معززینِ شہر،
با وقار اہلِ کمال اور پُر امن شہری ان بے وقعت مجرموں کو دیکھتے ہی لا حول کا
وِرد شرع کر دیتے اور ان پر تین حر ف بھیجتے۔ ان مخبوط الحواس اور فاتر العقل
مسخروں کی ہذیان گوئی سے سب پناہ مانگتے۔ گھاسفو نے ہمیشہ زادو لُدھیک کی بے غیرتی
اور بے حسی پر حسد کیا اور وہ بر ملا کہتا کہ بے شرمی اور بے حسی میں زادو لُدھیک
اس سے بڑھ گیا ہے۔ زادو لُدھیک نے ایک مر تبہ اپنے شریک جُرم اور بد نام جواری
گھاسفو کے بارے میں کہا تھا:
گھڑا سمجھ کے وہ چُپ تھا میری جو شامت آئی
اُٹھا اورا ُٹھ کے لتے میں نے بد زباں کے لیے
زاد و لُدھیک اور گھاسفو ہم زُلف بھی تھے اور ہم
نوالہ اور ہم پیالہ بھی تھے۔ عالمِ شباب میں ان جنسی جنونیوں اور منشیات کے عادی
گھٹیا عیاشوں کے ہاتھوں کسی کی عزت و آبرو محفوظ نہ تھی۔ پُورے علاقے میں
سوادِ سحر میں نُور و نکہت کی فضاکو مسموم کر نے میں ان کا قبیح کردار کسی سے
پوشیدہ نہ تھا۔ ان کی اخلاق باختگی، مظالم اور سمے کے سم کے ثمر سے پُوری فضا
سوگوارہو جاتی اور دکھی انسانیت اشک بار ہو جاتی۔ مظلوم، بے بس و لاچار اور دُکھی
انسانیت ان کی پیدا کردہ سفاک ظلمتوں میں چراغِ دِل کو فروزاں کر کے گوشۂ
عافیت کی تلاش میں نکلتے مگر وہ سرابوں کے عذابوں میں منزلوں سے نا آشنا در بدر
اور خاک بسر پھرتے رہتے۔ اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ ان پیشہ ور جرائم پیشہ درندو ں
اور دلوں میں نفرت کے بیج بونے والوں نے مجبوروں پر ظلم وستم کے وہ پہاڑ توڑے کہ
بے بس انسانیت کے لیے جائے رفتن نہ پائے ماندن والا معاملہ تھا۔ ان حالات میں یہ
بونے خود کا باون گزا سمجھنے لگے، اپنے جعلی قدو قامت پر اُنھیں اس قدر زعم تھا کہ
وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ ریت کے ٹیلوں پر کھڑے ہو کر سر بفلک کوہساروں کی
بلندی کو نہ دیکھنے والے شیخی خوروں کی بے بصری اور کور مغزی سے ایسی ہی بوالعجبی
اور طُرفہ تماشے ہی کی توقع رکھنی چاہیے۔ معاشرے کے تمام با ضمیر لوگ اندھی
خواہشات کے پھُنکارتے ہوئے ناگوں کو کُچل کر عزت نفس کا علم تھام کر آگے بڑھنے کی
آرزو کرتے لیکن یہ سفلہ و ابلہ گُرگ اپنے پالتوسگانِ راہ کو شہ دیتے اور سگانِ راہ
اُن پر جھپٹ پڑتے۔ ان کی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور مظالم نے مظلوموں کے خیمۂ جاں
کی طنابیں کاٹ ڈالیں اور ان کے پیدا کردہ حصارِ تیرگی کی مسموم فضا میں مظلوموں کا
دم گھُٹنے لگا۔ فصیلِ ذات کے حصار میں کبر و نخوت اور مے ارغوانی کے نشے سے بد مست
ان عیاروں نے مظلوموں کے کچے گھروندوں کی زمین کو اپنی سفاکی سے لہو لہو کر دیا۔
ان فراعنہ کی بد اعمالیوں سے بیزار اور ان کے ہاتھوں ستم کشِ سفر رہنے والے
مظلوموں نے ایک مرتبہ ان کے خلا ف بہت بڑ جلوس نکالا۔ مشتعل مظاہرین کا یہ جلوس
شہر کی مصروف شاہراہوں سے گزرا۔ جلوس کے شرکا ان ننگِ انسانیت درندوں کے خلاف یہ
نعرے لگا رہے تھے:
منہ کے ذائقے کڑوے ہیں : ان کے
پیچھے بھڑوے ہیں
کڑوا زبان کا ذائقہ ہے
: اس کے پیچھے نائکہ ہے
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کا سب کروفر سیل زماں
کے تھپیڑوں میں خس و خاشاک کے مانند بہہ گیا۔ جنگل کے ماحول میں ایسے سانحے ان پر
گُزرنے لگے کہ یہ ناہنجار اپنے سائے سے بھی ڈرنے لگے۔ گوشۂ عزلت میں درد کی شمع
رات بھرسُلگتی رہتی اور یہ غم کی تھر تھراتی لو پردیپک راگ الاپتے ر ہتے۔ عبرت
سرائے دہر میں کبھی یہ ایام گزشتہ کی کتاب کے مطالعہ میں جی کا زیاں کرتے اور کبھی
رفتگاں کی یاد کو اپنے دل میں بسائے اجنبی سی منزلوں کی جستجو میں نکلتے لیکن
سرابوں کے عذابوں میں پھنس کرنا مُرادانہ زیست کرتے۔ لُٹی محفلوں کی دھُول سے اٹی
ان کی پتھرائی ہوئی آنکھوں میں بیتے ہوئے حسین دنوں کی عیاشیاں، بد معاشیاں، اُمنگیں
اور ترنگیں اب تک خیال و خواب کی صورت میں بسی تھیں۔ وہ سوچتے اس طرح کے جینے کو
کہاں سے جگر لائیں ؟ان پر یہ راز کھُل گیا تھا کہ مے و افیون اور جنس و جنون کے
شیدائیوں کے لیے ذلت ورسوائی، بربادی اور رُوسیاہی کی کوئی حد یا کوئی منزل ہی
نہیں ہوتی۔ ہر انسان کی زندگی میں کئی نشیب و فراز آتے ہیں لیکن ہر شخص مصلحت کے
تحت نشیبوں سے بچ کر فرازوں کی تمنا کرتا ہے۔ گھاسفو، اس کی بیوی ثباتی، زادو
لُدھیک اور اُس کی بیوی ظلی کی کور مغزی کا یہ حال تھا کہ یہ زندگی بھر دانستہ
نشیبوں کی جانب سر گرم سفر رہے۔ مجنونانہ زیست کی رذیل اور جبر آزما مسافت کے بعد
انھیں محسوس ہوا کہ نحوست اور بد بختی کی دھُول اُن کا پیرہن بن چُکی ہے۔ وہ جاگتی
آنکھوں سے بھُوتوں، چڑیلوں اور ڈائنوں کو اپنے رُو برو دیکھتے۔ حالات نے ایسا رُخ
اختیار کر لیا کہ اب تو یہ مافوق الفطرت عناصر اُنھیں اپنے ابنائے جنس دکھائی دیتے
تھے۔ کبھی کبھی ان کے والدین بھی ان کے سامنے آ جاتے وہ بھی ان ننگِ آبا کی بد
اعمالیوں کے باعث عرقِ ندامت سے تر ہوتے تھے۔ ان کے خار زارِ حیات سے حالات
کے کرگس و بُوم اور زاغ و زغن زرو مال کے سب استخواں نوچ کر لمبی اُڑانیں بھر چُکے
تھے۔ ان کے رقیب ان کی چھاتی پر مونگ دلتے رہتے اور وہ بے بسی کے عالم میں کفِ
افسوس ملتے رہتے۔
پرِ زمانہ تو پروازِ نُور سے بھی تیز ہے۔ ایام کے
پُلوں کے نیچے سے آبِ رواں کے بہاؤ کا سلسلہ جاری رہا اور سارا منظر نامہ ہی بدل
گیا۔ زادو لُدھیک اور گھاسفو کے بدنام ساتا روہن اور مارِ آستین ہی ان کے مکمل
انہدام کے ذمہ دار تھے۔ ہیرا منڈی میں کثرتِ مے نوشی اور جنسی جنون کے باعث یہ
دونوں خسیس کئی عوارض میں مبتلا ہو گئے۔ رسوائے زمانہ جسم فروش رذیل طوائفوں ظلی
اور ثباتی نے ہیرا منڈی میں اپنے قحبہ خانوں کے جال میں پھنسا کر انھیں نہ صرف مالی
اعتبار سے مفلس و قلاش کر دیا بل کہ جسمانی طور پر بھی یہ مُردوں سے بھی بد تر ہو
چُکے تھے۔ ان عیاروں کے سجائے ہوئے مصر کے بازار میں ہر کوئی اپنی متاعِ
زیست گنوا نے کے لیے بے قرار دکھائی دیتا تھا۔ یہ شداد جس فردوسِ بریں کی تعمیر
میں منہمک رہے سیلِ حوادث نے اُسے نیست و نابُود کر دیا۔ اس دنیا کے آئینہ
خانے میں حالات نے انھیں تماشا بنا دیا۔ کئی جان لیوا بیماریوں نے انھیں جکڑ لیا۔
یرقان، جذام، کوڑھ، خارش، ایڈز، جگر کے عارضے، گُردوں کی تکلیف، تپ دق اور دل کے
روگ جیسی فطرت کی تعزیروں نے ان مُوذی و مکار درندوں کو زندہ در گو ر کر دیا۔
شہرسے دُور ایک جذام گھر میں ان دونوں مُوذی درندوں کو علاج کے لیے پہنچا دیا گیا۔
منشیات کے علاج کے ماہر معالج کی ہدایت کے مطابق کڑی نگرانی اور سخت پہرے میں یہاں
ان کے علاج و پرہیز کا سلسلہ جاری تھا کہ ایک دن ایک سانپ تلے کے بچھو کی مدد سے
یہ وہاں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ اپنے گھر پہنچے تو چو لھے ٹھنڈے
ہونے کا باعث گھر والوں کی سر د مہری نے جلتی پر تیل کا کام کیا اوردسمبر کی سردی
میں ان کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ زمانہ بدل چُکا تھا ثباتی اور ظلی اب ضعیف ہو
چُکی تھیں ان کو اب بنارس میں مانگے پر بھیک بھی نہیں ملتی تھی۔ وہ جاروب کش
مہترانیاں بن کر امرا کے گھروں کے بیت الخلا صاف کرتی تھیں۔ بد نام چور کی یہ فطرت
ہے کہ وہ چوری نہ بھی کر سکے تو ہیر ا پھیری اور بے ضمیری سے باز نہیں آتا۔ ثباتی
اور ظلی ایک امیر گھرانے میں صفائی کرتی تھیں۔ اس گھرنے کے سب افراد ان تقدیر کی
ماری طوائفوں پر مہربان تھے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتے۔ ایک دن موقع پا کر
طوائفوں نے اپنے محسنوں کے گھر کا صفایا کر دیا اور نقد رقوم، سونے، چاندی کے بیش
بہا زیورات، ہیرے، جواہرات، قیمتی سامان اور بیش قیمت کپڑے چُرا لیے۔ یاس و
حُرماں نصیبی مسلسل ان رذیل طوائفوں کے تعاقب میں تھی، ان پر مقدمہ چلا اور چوری
ثابت ہو گئی۔ ان کو عدالت نے زندان میں بھیج دیا اور تمام سامان بر آمد کر لیا
گیا۔ زندان میں ان کے جنس و جنون کی شورش کافور ہو گئی اور ان کو اپنی اوقات کا
علم ہو گیا۔ چار سال کی اسیری کے بعد جب وہ باہر آئیں تو ان کے گھروں میں غربت و
افلاس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے۔ عہدِ جوانی کی سب عیاشی اب خیال و خواب بن چُکی تھی
اور یہ ضعیف طوائفیں اپنی حسرتوں پر آنسو بہانے کے لیے تنہا رہ گئی تھیں۔ جس کوٹھے
پر رقص، موسیقی اور ضیافتوں کا سلسلہ صبح کاذب سے لے کر رات گئے تک جاری رہتا تھا
اب وہاں فاقہ کشی روز کا معمول تھی۔ ویران گھر کی دیواروں پر سرِ شام ہر طرف
محرومی اور نا مرادی بالے کھولے گریہ و زاری میں مصروف رہتی تھی۔ نو خیز کلیوں اور
کھلتے گلابوں میں کانٹے چبھانے والے یہ سب مفت خور اب اپنے ویران گھر میں رُوکھی
سُو کھی کھا تے کھاتے سُوکھ کر کانٹا ہو گئے۔
ان کو یہ معلوم تھا کہ حالات کی سنگینی نے ان کی
زندگی سے رعنائی اور رنگینی کو معدوم کر دیا تھا۔ ہر جوتشی، رمال، نجومی، قیافہ
شناس اور عامل نے انھیں یہی بتایا کہ کہ یہ سب کچھ کسی چڑیل، کالی بلا، آسیب یا
بھوت کی کارستانی ہے۔ عامل جادو گر اکرو نے انھیں بتایا کہ ان کی خانماں بربادی
کالے جادو کے تباہ کن اثرات کی وجہ سے ہوئی ہے۔ کئی بار انھوں نے سر کٹے بھوتو ں
کو دیکھا جو رات کی تاریکی میں ان کا تعاقب کرتے اور انھیں سنگین نتائج کی دھمکیاں
دیتے تھے۔ مہیب سناٹوں، جانگسل تنہائیوں اور ہولناک تاریکیوں میں ان کا پالا کچھ
ایسے پر اسرار آدم خوروں سے پڑا جو اپنی ناک اور کانوں سے محروم تھے اور جن کے
چہرے پر اس قدر کالک ملی ہوئی تھی کہ ان کی شکل و صورت کی شناخت نا ممکن تھی۔
انھوں نے ماہرین علم بشریات کو اپنی اس پریشانی سے آگا ہ کیا تو یہ حقیقت منکشف
ہوئی کہ یہ تو ان کی اپنی تصویریں یا ہم زاد معلوم ہوتے ہیں۔ اپنے ہم زاد کے ستم
سہتے سہتے وہ ہولناک تباہی اور مکمل انہدام تک جا پہنچے۔ ان کے گھر میں کچھ ایسے
افراد کا آنا جانا بھی رہا جن کی شکل و صورت سگانِ راہ، ریچھوں اور بھیڑیوں سے
ملتی جُلتی تھی۔ ان کے گھر کے کونے کھدروں میں کئی بجو مستقل طور پر رہتے تھے۔
قبروں میں اپنے تیز نوکیلے پنجوں سے شگاف ڈال کر نئے دفن ہونے والے مُردوں کی
لاشیں کھُدیڑنے والے یہ منحوس اور مکروہ جانور آفتِ نا گہانی کی صورت میں ان کے
گھر میں آ گھُسے تھے اور گہرے بِل بنا کر اور لمبی سرنگیں کھود کر مرداروں کا گوشت
نوچتے۔ ان کی وجہ سے یہ گھر مردہ خانے کی کریہہ شکل اختیار کر گیا تھا۔ کوّے کی
جسامت کے بڑے بڑے چمگادڑ دن کو تو ان کے گھر کے شہتیروں سے لٹکے رہتے لیکن شام
ہوتے ہی وہ صحن میں لمبی اُڑانیں بھرتے۔ چِیل کی جسامت کے چُغد نا معلوم کس طرف سے
سرشامِ نمودار ہوتے اور رات بھر چمگادڑوں کے ساتھ مل کر ان کے گھر کے اوپر پرواز
کرتے رہتے تھے۔ ایک ان جانا خوف ان کے اعصاب پر مسلط ہو چُکا تھا اور ان کی چھٹی
حِس یہ کہتی تھی کہ اب اُن کا جانا ٹھہر گیا ہے وہ صبح گئے کہ شام گئے۔ انھوں نے
ہنومان جی کی سیوا بھی کی اور سنجیونی بُوٹی تلاش کرنے کی کوشش بھی کی لیکن ان کی
سب خواہشیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بنارس کے ایک سادھو نے انھیں بتایا کہ اب ان کی
ہونی کو روکنا ممکن ہی نہیں اس نے یہ بھی بتایا کہ اگلے جنم میں یہ دونوں سگِ آوارہ
ہو ں گے اور ان کی داشتائیں ظلی اور ثباتی ڈائنیں اور چڑیلیں بن جائیں گی۔ ان جسم
فروش رذیل طوائفوں نے بے شمار گھر بے چراغ کر دئیے اور زندگی کی تمام رُتیں ہی بے
ثمر کر دیں۔ ادھیڑ عمر کی ثباتی اور ظلی کے بارے میں یہ بات زبان زد عام تھی کہ یہ
خون آشام بلیاں نو سو چوہے ڈکارنے کے بعد گنگا اور جمنا کی یاترا کرنے اور ہیرا
دیوی کی مورتی کے سامنے چھے ماہ کی طویل تپسیا کرنے کے باوجود اپنی نجا سکت اور
خباثت کے باعث زندگی بھر مردودِ خلائق ہی رہیں۔ ظلی اور ثباتی کے ساتھ بھی
مقدر نے عجب کھیل کھیلا۔ دو چڑیلیں ہمہ وقت ان کے در پئے آزار رہتیں۔ ان کے گھر
سورج غروب ہوتے ہی شام الم ڈھلتی تودرد کی تیز ہوا چلنے لگتی۔ ان کے عفو نت زدہ
جسم کا ریشہ ریشہ آلامِ روزگار کی بھٹی میں سُلگنے لگتا۔ راتوں کے پچھلے پہر میں
ایک آدم خور چڑیل ہر طوائف کے کمرے میں داخل ہوتی اوراس کے جسم کو جھنجھوڑنے اور
بھنبھوڑنے لگتی۔ اس کے بعد اس کی گردن میں اپنے نوکیلے دانت پیوست کر کے اُ س کی
رگوں کا خون پینے لگتی۔ ہر طوائف کے ساتھ یہی المیہ دہرایا جاتا۔ ہر طوائف
کا کہنا تھا کہ یہ چڑیل عجیب مانو س اجنبی تھی جب آتی تو جنسی جنون میں مردوں سے
بھی آگے نکل جاتی۔ ان کے بعض احباب اس کو توہم پرستی اور خام خیالی پر محمول کرتے
لیکن ان طوائفوں کی گردن پر دانتوں کے نشان اور بہتا ہوا خون دیکھ کر لوگوں کا شک
یقین میں بدل جاتا اور سب لوگ اسے عذاب سے تعبیر کرتے۔ سیلِ زماں کے بارے میں یہ
کہا جاتا ہے کہ اس کی مثال بھی سیلِ رواں کی تُند و تیز موجوں کی سی ہے کوئی بھی
شخص اپنی شدید ترین تمنا اور قوت و ہیبت کے باوجود پُلوں کے نیچے سے بہہ جانے والے
آبِ رواں اور بیتے لمحات کے لمس سے دوبارہ کسی بھی صورت میں فیض یاب نہیں ہو سکتا۔
ثباتی اور ظلی کو بھی حالات اس موڑ پر لے آئے کہ عالمِ تنہائی میں کوئی ان کا
پرسان حال نہ رہا۔ بسترِ مرگ پر پڑی ثباتی نے ظلی سے کہا:
’’سچ
مُچ ہماری کایا کلپ ہو چُکی ہے اور ہم ڈائنیں بن چُکی ہیں۔ خون آشامی ہماری فطرت
بن چُکی ہے۔‘‘
’’مُجھے
اچھی طرح معلوم ہے کہ ہم دونوں کی کایا کلپ ہو چُکی ہے۔‘‘ظلی نے کراہتے ہوئے کہا
’’میں جانتی ہوں کہ ہم دونوں ڈائنیں اور چڑیلیں بن گئی ہیں اور ہم طویل عرصے سے
رات کی تاریکی میں ایک دوسری کو جھنجھوڑتی اور بھنبھوڑتی ایک دوسری کا سر پھوڑتی
اور گردن کا خون نچوڑتی رہی ہیں۔‘‘
’’میں
سب جانتی ہوں۔‘‘ظلی نے آہ بھر کر کہا ’’زندگی کے وہ دن تو اب بیت گئے۔ اب ان باتوں
کو کیا دہرانا ؟مجھے معلوم ہے کہ ہم ایک دوسری ے لیے چڑیل بن جاتی تھیں۔‘‘
گردشِ حالات اور شامتِ اعمال کے نتیجے میں یہ
طوائفیں ایڈز کی جان لیوا بیماری سے نڈھال ہو کر چارپائی سے لگ گئیں اور پھر ان کی
ارتھی اُٹھی۔
زادو لُدھیک اور گھاسفو اب اپنے پُرانے آشنا
تلنگوں کو یاد کرتے اور انبوہِ غم اور ہجومِ یاس میں سسکتی اُمنگوں، دم توڑ تی
ترنگوں نے ان بھُوکے ننگوں کو عبرت سرائے دہر میں خاک بسر پھرنے، آہیں بھرنے اور
بیتے دنوں کی یادوں پر کُڑھنے پر مجبور کر دیا۔ لُٹی محفلوں کی دھُول سے ان کی
آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ ایک دن یہ اپنے پُرانے ساتھی اور شریکِ جرم ساتھی روپن مل
وانی کے ہاں پہنچے۔ کالے دھن کی فراوانی سے روپن مل وانی کی پانچوں گھی میں تھیں
اوراس کا شمار شہر کے انتہائی متمول اور با اثر لوگوں میں ہوتا تھا۔ روپن مل وانی
ایک زمانے میں کوڑی کوڑی کا محتاج تھا اور شہر میں جُو تیاں چٹخاتا پھرتا تھا۔ اس
کے بعدگھاسفو اور زادو لُدھیک کے عقوبت خانے، چنڈو خانے اور قحبہ خانے میں صفائی
کے کام کے لیے اسے ملازم رکھا گیا۔ اس بھڑوے نے قحبہ خانے کی ملازمت کے دوران زادو
لُدھیک اور گھاسفو کے ذریعے جرائم پیشہ افراد اور منشیات کے سمگلروں سے تعلقات
استوارکر لیے۔ اس کے بعد کُوڑے کے ہر ڈھیر سے جاہ و منصب اور زر و مال کے استخواں
نو چنے والے اس سگِ آوارہ نے کالا دھن کمانے کا ہر حربہ استعما ل کیا۔ چند برسوں
میں روپن مل وانی کا شمار علاقے کے انتہائی صاحبِ ثروت لوگوں میں ہونے لگا۔ زادو
لُدھیک اور گھاسفو نے بھی قحبہ خانے سے بے تحاشا کالا دھن کمایا لیکن انھوں نے سب
کچھ سٹے بازی میں ضائع کر دیا۔ روپن مل وانی اپنی عیاری اور مکر کی چالوں سے دونوں
ہاتھوں سے زر و مال سمیٹنے میں ہمہ وقت مصروف رہا اوروسیع جائیداد کا مالک
بن گیا۔ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ روپن مل وانی نے جادو ٹونے کے ذریعے زر و مال کے
انبار لگا لیے ہیں۔ اس شخص کی خست و خجالت کی وجہ سے کوئی بھی اس کو منہ نہ لگاتا۔
جیسے جیسے اس کی دولت بڑھتی گئی اسی قدر تیزی سے یہ انسانیت سے محروم ہوتا چلا
گیا۔ اس ابن الوقت، طوطا چشم اور محسن کُش نے گھاسفو اور زادو لُدھیک سے مِل کر
کئی بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگے۔ قسمت سے محروم دونوں دوست اس موہوم آس پر اپنے
پرانے ساتھی روپن مل وانی کے ہاں پہنچے کہ اُس کے ہاں قیام سے وہ اچھی غذا بھی کھا
سکیں گے اور مے و انگبین کی فراوانی سے اپنے دل کو شاد کر سکیں گے۔ روپن مل وانی
ان مفت خور، لیموں نچوڑ اور ننگِ انسانیت درندوں کی حالتِ زار دیکھ کر
ششدر رہ گیا۔ اس نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لی اور ان بن بلائے بے غیرت اور بے
ضمیر مہمانوں کو مویشیوں کے ڈھارے میں ایک بو سیدہ چٹائی پر بٹھایا اور جھوٹی تسلی
دیتے ہوئے پُوچھا :
’’ دنیا والوں نے تمھیں سبزۂ نو دمیدہ کے مانند پائمال کر دیا ہے تمھاری حالت
بہت خراب ہے۔ یہ تو بتاؤ کہ تمھارے علاج کی کیا کیفیت ہے ؟‘‘
زادو لُدھیک نے گلو گیر لیجے میں کہا:’’ ہم
جذام گھر میں ایک سال پڑے رہے سب تدبیریں اُلٹی ہو گئیں اور کسی دوا نے کام نہ
کیا، یوں سمجھ لو کہ جنونِ عشق اور نشے کی لت نے ہمارا کام تمام کیا ہے۔ اب
تو کوئی اُمید بر نہیں آتی اور نہ ہی بہتری کی کوئی صورت نظر آتی ہے۔ جن لوگوں کی
پھُوٹی کوڑی بھی ہم نے کبھی نہیں چُرائی تھی، ہماری تقدیر کیا پھُوٹی کہ وہ اب
ہمیں اس حال میں دیکھ کر ہمارا منہ چڑا کر آنکھیں چُرانے لگے ہیں۔ ہمارا یہ احسان
وہ بھول گئے ہیں کہ ہم نے اُنھیں کبھی گزند نہ پہنچایا اور وہ ہمارے شر سے
محفوظ رہے۔ جب ہم جوان تھے تو شہر کے سب اُٹھائی گیرے، بھتہ خور، رہزن، نقب زن،
چور، اُچکے، تلنگے، لُچے، رجلے، خجلے، ٹھگ اور اُجرتی بد معاش ہمارے پروردہ تھے
اور ہمارے ایک اشارے پر جاہ و حشمت اور کبر و نخوت کے سفینے اُلٹ دیتے تھے۔ ان
احسان فراموش ظالموں کی بد سلوکی دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے اور ہم پھُوٹ پھُوٹ
کر روتے ہیں۔
گھاسفو نے مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے کہا:’’ہماری
بیماری کی وجہ کمزوری ہے اب ہمارے تمام اعضا مضمحل ہو چکے ہیں، عناصر کا اعتدال
عنقا ہے۔ ہمارے پروردہ سب بد معاش طوطا چشم نکلے اور کوئی ہمارے دلِ شکستہ کا حال
پُو چھنے والا اب کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ روپن مل وانی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ
تمھاری یہ زرعی زمین، فارم ہاؤس اور سرمایہ کی کثرت سمگلنگ اور منشیات فروشی کے
ذریعے کالا دھن کمانا ہماری مدد کے بغیر کیسے ممکن تھا۔ ہم نے جان جوکھوں میں ڈال
کر سمگلنگ، منشیات اور قحبہ خانے کی کمائی سے دوستوں کی تجوریاں بھر دیں لیکن
ہمارے سب دوست مارِ آستین نکلے۔ آج ہم پر بُرا وقت آ گیا ہے تو سب نے گرگٹ
کی طرح رنگ بدل لیے۔ ہم بے بسی کی تصویر بن کر تمھارے پاس چلے آئے ہیں شاید تم
پُرانی سنگت کا کچھ احساس کرو اور ہمیں سر چھپانے کی جگہ دے دو اور ہمارے لیے اچھی
غذا کی فراہمی کا بندوبست کر دو۔ شفا خانے اور اپنے گھر میں ہمیں اچھوت سمجھا جاتا
رہا ہے، پرہیز کے نام پر ہمیں صرف اُبلی ہوئی سبزی اور خُشک روٹی ملتی رہی۔ مسلسل
فاقے اور جبری پرہیز نے ہمیں جیتے جی مار ڈالا۔ مدام فاقہ کشی اور ناگوار پرہیز سے
تنگ آ کر ہم جذام گھر سے بھاگ نکلے اور اپنے گھر آ گئے۔‘‘
’’اپنے
گھر میں تمھیں کھانے کو کیا ملتا ہے؟‘‘ روپن مل وانی نے بے توجہی سے پُو چھا
’’جذام گھر سے بھاگ کر تم نے اچھا نہیں کیا۔ متعدی امراض میں مبتلا تم جیسے مریضوں
کو آبادی اور شہریوں سے دور اس لیے رکھا جاتا ہے کہ یہ متعدی مرض دوسروں کو نہ لگ
جائے اور ان کی زندگی بھی تمھاری طرح اجیرن نہ ہو جائے۔ تم نے تو اپنے پاؤں پر
کلہاڑی ماری اور گھر پھُونک کر تماشا دیکھتے رہے۔‘‘
زادو لُدھیک بولا ’’ گھر والوں نے دکھ دئیے تو ہم
غم جہاں کا حساب کرنے لگے، ایسے میں ہمیں تم جیسے دوست بے حساب یاد آئے۔ اپنے گھر
میں بھی ہمیں خُشک سوکھی روٹی اور سادہ پانی کا ایک گلاس ملتا رہا ہے۔ اب
کہاں کا گھر اور کیسی غذا ؟اب تو سب کو جان کے لالے پڑے ہیں دو وقت کی روٹی تک
دستیاب نہیں۔ ہمارے گھر والے ہمیں بوجھ سمجھتے ہیں اور ہمارے مرنے کی دعا کرتے
ہیں۔ اب تو ہماری حالت اس قدر بگڑ گئی ہے کہ پیٹ کا دوزخ بھرنے کو ایک خشک روٹی
اورسر چھُپانے کی جگہ دینے پر بھی گھر والے آمادہ نہیں۔‘‘
یوں تو روپن مل وانی کے وسیع و عریض فارم ہاؤس بڑی
تعداد میں درندے کھلے عام دندناتے پھرتے تھے لیکن اُس کے مویشیوں کے ڈھارے میں دو
گدھے، تین کُتے، چار بِلیاں، دو خنزیر اور دو ریچھ نیم جان حالت میں لیٹے تھے۔ اس
بوسیدہ اور سیم زدہ ڈھارے کا کچا فرش دھان کی پرالی سے ڈھکا ہوا تھا۔ جانوروں کے
فضلہ اور غلاظت کی آلودگی سے یہ پرالی گیلی ہو چُکی تھی اور فرش سے عفونت و سڑاند
کے بھبھوکے اُٹھ رہے تھے۔ ڈھارے کے ایک کونے میں تینوں خارش زدہ کتے آنکھیں بند
کیے پرالی میں منہہ چھپائے پڑے تھے۔ جو ں ہی ان کتوں نے زاد ولُدھیک اور گھاسفو کو
آتے دیکھا تو وہ دُم دبا کر، گردن ہلا کر اور سر اُٹھا کر ہلکی آواز میں بھونکنے
لگے اور اپنے غلیظ دانت نکال کر انھیں دکھانے لگے۔ بِلیاں اپنے پنجوں سے اپنے جسم
کو کھجلانے لگیں، خنزیر اور ریچھ بھی نتھنے پھُلا کر اپنے جذبات کا اظہار کر رہے
تھے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ یہ سب جانور ان نئے اجنبی، خستہ حال اور گُرگ آشتی کے
رمز آشنا بھیڑیوں کی آمد پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ درندوں اور جانوروں کی
سُونگھنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سب جانوراس فکر میں دکھائی دیتے تھے کہ
وہ اپنے لیے اس ڈھارے میں کوئی محفوظ پناہ گاہ تلاش کر لیں جہاں وہ ان نئے
آنے والے درندوں سے دُور رہتے ہوئے ان مُوذیوں کو لاحق متعدی امراض سے بچ سکیں۔
روپن مل وانی نے حقارت سے ان دونوں موذیو ں کو دیکھا اور انھیں مویشیوں کے
ڈھارے کی طرف جانے کو کہا۔ جہاں کچے فرش پر بچھی ہوئی عفونت زدہ پرالی ہی اب ان
دونوں کا بچھونا تھی۔ روپن مل وانی نے اپنے دیرینہ جرائم پیشہ ساتھیوں کے لیے خشک
روٹی اور سادہ پانی کی فراہمی کا بندوبست کر دیا اور کہا:
’’اب
اس ڈھارے کو بھی اپنا ہی گھر سمجھواور تمھارے گھر جیسی غذا اس فارم کا خاکروب
روزانہ تمھارے سامنے ڈال جائے گا۔‘‘
یہ سُن کر زمین کا بوجھ بے حس گھاسفو اور عادی
دروغ گو زادو لُدھیک ٹسوے بہانے لگے لیکن یہ چکنے گھڑے د ل ہی دل میں خوش تھے کہ
فاقہ کشی سے نجات مل گئی اور سر چھُپانے کی جگہ تو مِل گئی۔ ایک رات گھاسفو نے غور
سے دیکھا تو زادو لُدھیک غُراتا ہو ا اس کی جانب بڑھ رہا تھا۔ مارے خوف کے اُس کی
گھگھی بندھ گئی۔ اب دونوں کی آنکھوں میں درندگی کے شعلے بھڑک رہے تھے۔ گھاسفو بھی
غراتا ہوا اس پر جھپٹا۔ دُور لیٹے ہوئے سگانِ آوارہ بھی غراتے ہوئے ان کی طرف
بڑھے۔ باقی درندوں نے بھی اس طوفانِ بلا میں بھر پور حصہ لیا۔ اس قدر شور
تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ کایا کلپ ہونے کے بعد چکنے گھڑے اب
باؤلے سگ بن چُکے تھے۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment