کل
چمن میں گل و سمن دیکھا
آج
دیکھا تو باغ بن دیکھا
کیا
ہے گلشن میں جو قفس میں نہیں
عاشقوں
کا جلاوطن دیکھا
ذوق
پیکان تیر میں تیرے
مدتوں
تک جگر نے چھن دیکھا
گھر
کے گھر جلتے تھے پڑے تیرے
داغ
دل دیکھے بس چمن دیکھا
ایک
چشمک دو صد سنان مژہ
اس
نکیلے کا بانکپن دیکھا
شکر
زاہد کا اپنی آنکھوں میں
مے
عوض خرقہ مرتہن دیکھا
حسرت
اس کی جگہ تھی خوابیدہ
میرؔ
کا کھول کر کفن دیکھا
No comments:
Post a Comment