خط
منھ پہ آئے جاناں خوبی پہ جان دے گا
ناچار
عاشقوں کو رخصت کے پان دے گا
سارے
رئیس اعضا ہیں معرض تلف میں
یہ
عشق بے محابا کس کو امان دے گا
پائے
پر آبلہ سے میں گم شدہ گیا ہوں
ہر
خار بادیے کا میرا نشان دے گا
داغ
اور سینے میں کچھ بگڑی ہے عشق دیکھیں
دل
کو جگر کو کس کو اب درمیان دے گا
نالہ
ہمارا ہر شب گذرے ہے آسماں سے
فریاد
پر ہماری کس دن تو کان دے گا
مت
رغم سے ہمارے پیارے حنا لگاؤ
پابوس
پر تمھارے سر سو جوان دے گا
ہو
جو نشانہ اس کا اے بوالہوس سمجھ کر
تیروں
کے مارے سارے سینے کو چھان دے گا
اس
برہمن پسر کے قشقے پہ مرتے ہیں ہم
ٹک
دے گا رو تو گویا جی ہم کو دان دے گا
گھر
چشم کا ڈبو مت دل کے گئے پہ رو رو
کیا
میرؔ ہاتھ سے تو یہ بھی مکان دے گا
No comments:
Post a Comment