سورہ
الاحقاف
مکی سورت ہے۔
پینتیس آیتوں اور پانچ رکوع پر مشتمل ہے۔ احقاف اس دور کی سپر پاور قوم عاد کے
دار السلطنت کا نام ہے اور اس کی تباہی ایسی ہی بڑی خبر ہے جیسے امریکی ٹاوروں کی
تباہی کی خبر۔ زبردست اور حکمت والے رب کا کلام قرآن کریم ہے، پھر آسمان و زمین
کی تخلیق سے وحدانیت باری تعالیٰ پر استدلال ہے اور پھر معبود برحق کی طرف سے
معبودانِ باطلہ کو چیلنج ہے کہ اس ساری کائنات کا خالق تو اللہ وحدہ لاشریک ہے، تم
بتائو تم نے کیا بنایا ہے؟ گمراہی کی انتہا ہے کہ ایسے معبودوں کو پکارتے ہیں جو
قیامت تک بھی جواب دینے کے قابل نہیں ہیں۔ ہمارا قرآن جب انہیں سنایا جاتا ہے تو
یہ کہتے ہیں کہ ’’نرا جادو‘‘ ہے اور اپنی
طرف سے گھڑ کر اللہ کے نام پر لگادیا ہے۔ آپ کہئے کہ اگر میں اللہ کے نام پر
جھوٹا کلام گھڑ کر پیش کرنے لگوں تو مجھے اللہ کی گرفت سے کون بچائے گا۔ میں کوئی
انوکھا رسول نہیں ہوں اور مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں کہ میرے اور تمہارے ساتھ
کیا ہونے والا ہے میں تو ’’وحی‘‘ کا پابند ہوں اور میں واضح ڈرانے والا ہوں۔ کافر
لوگ کہتے ہیں کہ اگر کوئی اچھی بات ہوتی تو یہ لوگ اسے قبول کرنے میں ہم سے سبقت
نہ لے جاتے۔ انہیں جب قرآن کی ہدایت نہ مل سکی تو اسے پرانا جھوٹ قرار دینے لگ
گئے۔ پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین اور اولاد کی خاطر والدین خصوصاً ’’ماں‘‘ کی طرف سے اٹھائی جانے والی تکالیف کا تذکرہ ہے کہ
حمل، ولادت اور رضاعت میں کس قدر مصائب برداشت کرتی ہے۔ پھر اولاد دو طرح کی ہوتی
ہے: (۱)صالح، فرماں بردار، والدین کے لئے دعاء گو (۲)فاسق
و نافرمان، والدین کی گستاخ۔ہر ایک کو اس کے عمل کے مطابق صلہ ملے گا۔ پھر قوم عاد
کو ان کے نبی حضرت ہود علیہ السلام کی طرف سے دعوت توحید اور قوم کے انکار اور ہٹ
دھرمی پر اللہ کی طرف سے بادلوں کی شکل میں عذاب۔ قوم اسے بارش برسانے والے بادل
سمجھتی رہی مگر ان بادلوںکے ساتھ تیز آندھی اور طوفان تھا۔ ایسی تیز ہوا تھی کہ
جس چیز کو لگتی اسے راکھ بنا کر تباہ کردیتی۔ پھر جنات اور ان کے قرآن سننے کا
واقعہ جس سے حضور علیہ السلام اور آپ کے ساتھیوں کی تسلی کا سامان کیا گیا ہے کہ
اگر مشرکین مکہ آپ پر ایمان نہیں لاتے تو اللہ کی دوسری مخلوقات آپ کی نبوت کی
تصدیق کرنے کے لئے موجود ہیں۔ قیامت کے دن کافروں کو جہنم کے کنارے پر کھڑے کرکے
پوچھا جائے گا کہ بتائو تم اس کو ’’جادو‘‘ کہتے تھے کیا یہ حق نہیں ہے؟ تو وہ اللہ کی قسم
کھا کر اسے درست تسلیم کریں گے، اللہ کہیں گے کہ اپنے کفر کا آج عذاب چکھ لو۔
حضور علیہ السلام سے کہا جارہا ہے کہ آپ پہلے انبیاء و رسل کی طرح ثابت قدمی کا
مظاہرہ کرتے رہیں اور ان کافروں کی ہلاکت کے لئے جلدی نہ کریں۔ جب ان پر عذاب آئے
گا تو انہیں ایسا ہی محسوس ہوگا جیسے ایک آدھ دن کی مہلت بھی انہیں نہیں ملی ہے۔
نافرمانوں کا مقدر ہلاکت ہی ہوتی ہے۔
No comments:
Post a Comment