سورہ
محمد
مدنی سورت ہے۔
اڑتیس آیتوں اور چار رکوع پر مشتمل ہے۔ اس کا دوسرا نام سورہ القتال ہے۔ غزوئہ
بدر کے بعد نازل ہوئی، اس میں جہاد کے احکام قیدیوں کے بارے میں قانون سازی اور
صلح کے متعلق قرآنی تعلیمات مذکور ہیں۔ ابتداء میں خیر و شر اور کفرو اسلام کی
بنیاد پر انسانی معاشرہ کی تقسیم اور ان کا انجام مذکور ہے۔ اللہ کے راستہ سے
روکنے والے کافروں کے اعمال ضائع ہوکر رہ جاتے ہیں جبکہ ایمان و اعمال صالحہ والے
کامیابیوں سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اللہ ان کے گناہوں کو معاف فرما کر ان کے حالات کو
سنوار دیتے ہیں۔ کافروں سے جب تمہارا مقابلہ ہو تو سستی دکھانے اور راہِ فرار
اختیار کرنے کی بجائے ان کی گردنیں مارو اور انہیں قتل کرو۔ جب تم کفر کی شان و
شوکت کو توڑ چکو تو پھر ان کے باقی ماندہ افراد کو گرفتار کرکے ان کو رسیوں میں
مضبوطی سے جکڑ دو، پھر تم مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر چاہو تو ان پر احسان کرکے
آزاد کردو اور چاہو تو فدیہ وصول کرکے چھوڑ دو مگر مقصد ان کی جنگی قوت کو توڑنا
اور حربی صلاحیت کو ختم کرنا ہونا چاہئے۔ اللہ انہیں کراماتی طریقہ پر آسمان سے
آفت نازل کرکے بھی ختم کرسکتے ہیں مگر وہ تمہارے ہاتھوں سے سزا دلاکر آزمانا
چاہتے ہیں۔ شہداء اسلام کے اعمال ضائع نہیںہونے دیئے جائیں گے۔ اے ایمان والو! تم
اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری مدد فرمائیں گے اور تمہارے قدم جمادیں
گے۔ دنیا میں چل پھر کر مجرمین کا انجام دیکھ لو۔کتنی بستیاں تم سے زیادہ جاہ و
حشمت اور طاقت وقوت والی تھیں۔ ہم نے جب انہیں ہلاک کیا تو کوئی ان کی مدد کو بھی
نہ آسکا۔ دین پر علی وجہ البصیرت عمل کرنے والا اور خواہشات پر چل کر اپنے گناہوں
کو نیکیاں باور کرنے والا کبھی برابر نہیں ہوسکتے۔ متقیوں کے لئے تیار کردہ جنتوں
کے اندر ایسی نہریں ہوں گی جن کا پانی سڑنے اور بدبو مارنے سے محفوظ ہوگا۔ دودھ کی
نہریں ہوں گی جس کا ذائقہ خراب نہیں ہوگا۔ مزیدار شراب کی نہریں اور صاف و شفاف
شہد کی نہریں ہوں گی، ہر قسم کے پھل اور مغفرت انہیں ملے گی۔ اس کے بالمقابل جہنم
میں اگر کوئی جاکر کھولتا ہوا پانی پئے اور اس کی آنتیں کٹ کر باہر نکل آئیں تو
یہ اس کے برابر نہیں ہوسکتا۔ بعض منافقین آپ کی مجلس میں بیٹھ کر قرآن سنتے ہیں
مگر بعد میں دوسروں سے کہتے پھرتے ہیں کہ آج کیا بات بیان کی گئی ہے؟ اس سے ان کا
مقصد تعریض کرنا ہوتا ہے۔ انہیں اگر آج سمجھ میں نہیں آرہا ہے تو کیا قیامت کے
دن سمجھیں گے۔ مؤمنین تو قرآن کی سورتوں اور آیتوںکے نزول کے متمنی رہتے ہیں۔
اور قرآن نازل ہوکر ان کی تمنا پوری کردیتا ہے مگر منافقین کا حال یہ ہوتا ہے کہ
جب آیات قرآنیہ جہاد کا حکم لے کر اترتی ہیں تو ان کا نفاق کھل کر سامنے آجاتا
ہے اور موت کے خوف سے یہ لوگ مرے چلے جاتے ہیں۔ یہ لوگ ظاہراً اطاعت و فرماں
برداری کے دعوے کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ معاشرہ میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں
اور قطع رحمی کے داعی ہیں۔ ان پر اللہ کی طرف سے ایسی پھٹکار ہے کہ یہ اندھے اور
بہرے ہوکر رہ گئے ہیں۔ منافقین کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے یہ لوگ قرآن میں غور و
خوض کیوں نہیں کرتے؟ کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں۔ منافقین سمجھتے ہیں کہ
ان کے دلوں کا کھوٹ ظاہر نہیں ہوگا۔ حالانکہ ان کی شکل و صورت اور لب و لہجہ ان کے
دلوں کی بیماری کا پتہ دے رہا ہے، ہم جہاد کی آزمائشی بھٹی میں ڈال کر ثابت قدم
مجاہدین کو منفرد و ممتاز بنا کر منافقین کو ان سے جدا کردیں گے۔ تم کمزوری دکھا
کر صلح کا مطالبہ نہ کرو۔ تمہی غالب ہوگے، اللہ کی مدد تمہارے شامل حال رہے گی اور
وہ تمہارے اعمال کو ضائع نہیںجانے دیں گے۔ البتہ اگر کافر صلح کی درخواست کریں تو
مسلمانوں کے مفاد میں اس پر غور کرسکتے ہو (جیسا کہ سورہ الانفال میں ہے) جب جہاد
کے لئے مال خرچ کرنے کا مطالبہ ہوتا ہے تو یہ بخل کا مظاہرہ کرنے لگتے ہیں حالانکہ
بخیل اپنا ہی نقصان کرتے ہیں اللہ کو تمہارے مال کی کوئی ضرورت نہیں ہے وہ غنی ہے
اور تم محتاج ہو۔ اگر تم نے جہاد سے پہلو تہی کی تو تمہیں ہٹاکر اللہ کسی دوسری
قوم کو لے آئیں گے اور وہ تمہاری طرح سستی اور بخل کا مظاہرہ نہیں کریں گے۔
No comments:
Post a Comment