Urdu Short Stories by Intkhab Ahmad Nadeem Qasmi
راجندر سنگھ بیدی
ٹاؤن ہال کے سامنے نسیم باغ کے اندر دو تین چیزیں
ہی میری توجہّ کا مرکز تھیں۔ایک لمبا سا سُنبل کا درخت جو بھیگی ہوئی سبز چھال کا
ایک خوبصورت کوٹ پہنے تھا اور جو ہَوا میں دور دیہڑھ رام دھن کے قدرتی نشیب سے ایک
شرابی کی طرح جھومتا نظر آتا تھا۔ ایک کھلندڑا احمق سا طالب علم، جو اپنی کتابوں
کو دور پھینک کر ہمیشہ ایک ہی انگریزی گانا گیا کرتا تھا، جس کا مطلب ہے— جب سردی آتی
ہے تو بہار دور نہیں رہتی۔
ان دونوں کے علاوہ بیس بائیس برس کی ایک عورت
دکھائی دیا کرتی، جو اپنے لقوہ زدہ بچّہ کے رال سے آلودہ چہرے کو چومتے ہوئے
دیوانی ہو جاتی۔ وہ عموماً ایک ہی طرح کی سفید ویل کی سادہ ساڑھی پہنا کرتی، اور
اس کے تیوروں کے درمیان کہیں لکھا تھا— پرے ہٹ جاؤ۔
پہلے پہل جب میں نے اسے دیکھا تو مجھے خیال پیدا
ہوا کہ وہ بھوکی ہے۔ لیکن اس کے فوراً بعد ہی اس نے کچھ مالٹے خریدے اور اپنے بچّے
کے سامنے بکھیر دیے۔ اگر وہ بھوکی ہوتی تو ضرور ان مالٹوں میں سے ایک آدھ مالٹا
کھا کر اپنے پیٹ کی آگ بجھا لیتی۔پھر میں نے سوچا کہ شاید وہ جنسی بھوک کی شکار ہے
لیکن اگر میرا یہ خیال درست ہوتا تو اس کے ماتھے پر وہ تیور نہ ہوتے اور وہ نوّے
فیصدی عورتوں کی طرح اپنے لیے بھی کوئی شوخ رنگ منتخب کرتی۔
لقوہ زدہ ہونے کے باعث اس کا بچّہ بدصورت تھا اور
اس کا چہرہ ہمیشہ رال سے آلودہ ہوتا تھا۔ اس کی ماں بیسیوں دفعہ رُومال سے اس کا
منھ اور ٹھوڑی صاف کرتی، لیکن بچّہ ایک احتجاج سے اِدھر اُدھر سر ہلانے لگتا اور
صاف کیے جانے کے فوراً بعد ہی لعاب کے بُلبُلے اُڑانے لگتا، جو ہَوا سے بکھرتے
ہوئے اس کی ماں اور اس کے اپنے چہرے پر آ کر گرتے اور ایک عجیب نفرت انگیز کیفیت
پیدا ہو جاتی۔ اس کے بعد وہ ایک بے معنی احمقانہ ہنسی ہنسنے لگتا، اور وہ عورت
خوشی سے رونے لگتی۔
بعد میں مجھے پتہ چلا کہ ایک سیاہ موٹر، جو ہر روز
نسیم باغ کے دروازے پر آ کر کھڑا ہوتا ہے اور جس کا ڈرائیور بڑی بدتمیزی سے ہارن
کو زور زور سے بجاتا ہے، اسی عورت کو لینے آتا ہے۔ اس کار میں سے ایک لمبا چوڑا
مرد ایک چوڑی دار پاجامہ، جس کا ازار بند ململ کی قمیص کے نیچے سے جھانکا کرتا،
پہنے آتا۔ اس کی گرگابی کا پینٹ چمڑا بہت چمکتا تھا۔ اس کا منھ پان کی پیک سے بھرا
ہوا ہوتا۔ زیادہ قریب ہونے سے اس کی سُرخ آنکھوں اور اس کے سانس کے تعفّن سے اس کے
شرابی ہونے کا پتہ چلتا۔ شاید وہی آدمی اس بچّے کے لقوہ زدہ ہونے کا باعث تھا۔ وہ
اس عورت کے قریب آ کر اسے بہت گرسنہ نگاہوں سے دیکھا کرتا اور اسے بازو سے پکڑ کر
موٹر کی طرف لے جانے کی کوشش کرتا۔ ان حرکتوں سے وہ اس عورت کا خاوند تو دکھائی
دیتا تھا، مگر اس بچّے کا باپ نہیں۔
اپنے خاوند کے بلانے پر بھی وہ عورت اپنے مخصوص
دیوانے پن سے اس بچّے کے ساتھ کھیلتی جاتی اور اس کا خاوند بسا اوقات ایک ٹھنٹھ پر
بیٹھ کر ٹانگیں پھیلائے اپنی بیوی کی مجنونانہ حرکتوں کو دیکھتا۔ کچھ عرصہ بعد
بیوی ان ہی دور باش نگاہوں سے اپنے خاوند کی طرف دیکھتی اور بچے کے چھوٹے موٹے
کپڑے، مالٹے، سیلولائڈ کے کھلونے سمیٹنے لگتی۔ اُدھر ہارن کی آواز بلند ہوتی جاتی،
ادھر عورت اپنے کام میں تیزی سے منہمک ہو جاتی۔
مجھے اس عورت سے ایک قسم کا اُنس ہو گیا تھا۔ ایک
قسم کی دلچسپی، جس کی بنا پر میں اس کی حرکت میں معانی تلاش کر لیتا تھا۔ میں نہیں
کہہ سکتا تھا کہ وہ عورت واقعی خوبصورت تھی یا نہیں، لیکن میرے تخیل نے اسے بے حد
حسین بنا لیا تھا۔ اس کا بالوں کو سنوارنے کا انداز مجھے بہت پسند تھا۔ وہ جھٹکے
سے اپنے بے ترتیب بالوں کو پیچھے کی طرف پھینک دیتی اور اپنی انگلیاں پھیلا کر
شانہ کی طرف ان میں داخل کرتی ہوئی اپنا ہاتھ پیچھے کی طرف لے جاتی اور میرے لیے
یہ تمیز کرنا مشکل تھا کہ اس کی حرکتیں ارادی ہیں یا غیر ارادی۔
مجھے اس کے خاوند کی طرح اس کے بچّے اور اس کے
لعاب آلودہ چہرے سے بے حد نفرت تھی۔ البتہ بچّے کی بے چارگی پر رحم بہت آتا، جو
میرے دل میں محبت کے جذبہ کو اُکسا دیتا، لیکن اس قسم کی محبت جس کی تہ میں ہزاروں
نفرتیں کوٹ کوٹ کر بھری ہوں ۔اس سے تو محبت نہ کرنا ہی اچھا ہے۔
بہت دنوں تک میں کسی ایسے موقع کا منتظر رہا جب
میں اس عورت سے ہم کلام ہو سکوں، جیسا بازاری محبت میں ہوتا ہے کہ کسی لڑکی کی
کوئی چیز گر جاتی ہے اور کوئی لڑکا اُسے اُٹھا کر صاف کرتے ہوئے کہتا ہے
’’محترمہ — آپ کا رومال یا آپ کی کتاب!‘‘
پھر وہ لڑکی مسکرا کر شکریہ ادا کرتی ہے اور بس
محبت شروع ہو جاتی ہے۔ میں بہت دنوں تک دیکھتا رہا کہ اس عورت کی کوئی چیز گرے اور
میں کہوں ——
’’محترمہ — آپ کی … آپ کی … آپ کی
…‘‘
اور پھر محبت شروع ہو جائے۔ مگر وہ عورت بہت محتاط
تھی اور اس نے مجھے کوئی ایسا موقع نہ دیا۔ اکثر وہ مجھے ارد گرد منڈلاتے ہوئے
دیکھتی، لیکن میں اس کو متوجہ نہ کرسکا۔
آخر اُسے ایک دن مالٹے خریدنے کی ضرورت پیش آ گئی۔
اس وقت بچّے کی جرابیں، ربڑ کی گڑیاں اور کھانے کی چند چیزیں، جن کے آس پاس کوّے
منڈلا رہے تھے، پڑی تھیں۔ اگر وہ بچے اور ان چیزوں کو چھوڑ کر جاتی تو یقینا کوّے
ان چیزوں کو کھا جاتے اور شاید بچّے کی چمکتی ہوئی آنکھوں کو ٹھونگ بھی لیتے۔ بچّے
میں پہچاننے کی صلاحیت پیدا ہو رہی تھی اور وہ مالٹوں کا سُرخ رنگ پسند کرتا تھا۔
اس عورت نے کئی مرتبہ اٹھنا چاہا لیکن ان سب باتوں کی وجہ سے وہ اٹھ نہ سکی۔ میں
نے موقع پاکر اسے کچھ کہنا چاہا لیکن چند دنوں سے اسے مخاطب کرنے کے لیے جو الفاظ
میں نے حفظ کر رکھے تھے، بھول گئے اور میں فقط یہی کہہ سکا۔
’’محترمہ! … آپ کیا چاہتی ہیں —؟‘‘
اور اس عورت کے تیور بدستور قائم رہے، تاکہ اسے
میری آنکھوں میں وہی کچھ دکھائی نہ دے جو اسے اپنے خاوند کی آنکھوں میں دکھائی
دیتا تھا۔ اس نے پھر اسی نفرت سے بھری ہوئی آواز میں کہا
’’جی نہیں، مجھے آپ کی مدد کی ضرورت نہیں۔‘‘
— اور میری محبت مقفل پڑی رہی۔
اس عورت کا خاوند مویشیوں کے ہسپتال میں معلّم
تھا۔ کم از کم اس کی شکل اور باتوں سے تو یہی پتہ چلتا تھا۔ ہر وقت حیوانوں کے
ساتھ رہنے سے اس میں ایک خاص قسم کی حیوانیت پیدا ہو چکی تھی۔ اُسے اپنے لقوہ زدہ
بچّے پر کبھی پیار نہیں آتا تھا اور جب اس کی بیوی بچّے کو اس کے بازوؤں میں
دھکیلنے کی کوشش کرتی تو وہ گھبراتا ہوا پیچھے ہٹ جاتا … ہے ہے! میرے کپڑے خراب ہو
جائیں گے۔ میرے،میرے …
اور پھر وہ ان ہی گرسنہ نگاہوں سے اپنی بیوی کی
طرف دیکھتا ہوا کہتا’’ چلو میری جان، شوفر اب بہت شور مچا رہا ہے۔‘‘
اس عورت کا نام دمو تھا۔ خاوند اور بیوی کی باہم
گفتگو سے مجھے اس کے نام کا پتہ چل گیا تھا۔ دمو کتنا خوبصورت نام ہے۔ آہستہ سے
پکارا جائے تو کتنا اچھا لگتا ہے۔ اور جب دمو ناراض ہو جائے تو یہ نام لے کر اُسے
پچکارنے میں کتنا لطف ہے … یا شاید یہ سب کچھ مجھے ہی محسوس ہوتا تھا —
ایک دن اس کا خاوند کہہ رہا تھا —
’’ہمارے اسپتال میں یہی ہوتا ہے۔‘‘
’’تو ہوا کرے‘‘ دمو نفرت سے بولی ’’وہ کوئی
انسان تھوڑے ہی ہیں ——‘‘
’’وہ بہتر انسان ہیں— ‘‘ خاوند نتھنے پھُلاتے
ہوئے بولا — ’’کیا تمھارا خیال ہے کہ ایک گھوڑے کو لنگڑا ہو جانے پر مارنا نہیں
چاہیے۔ کیا یہ اچھا ہے کہ اس کا مالک اس سے برابر کام لیتا ہوا اُسے ہر روز چابکوں
سے زخمی کرتا رہے؟‘‘
دمو نے بدستور نفرت سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا
’’تو کیا اُسے کھُلا نہیں چھوڑسکتے؟‘‘
دموں کا خاوند اپنے بیٹے کی طرح احمقانہ ہنسی
ہنسنے لگا اور بولا۔
’’اس طرح کوئی اسے کھانے کے لیے کچھ نہ دے گا اور
وہ بھوکوں مر جائے گا۔ اب یہ فیصلہ تمھارے ہاتھ رہا کہ اس کے ایک دفعہ گولی مار کر
اذیت دینا بھلا ہے، یا اس کا روز روز کا مرنا۔‘‘
دمو لاجواب ہو گئی۔ اس سے لعاب سے بھرے ہوئے اپنے
بچے کی طرف دیکھا اور پھر اسے ایک گہرے مادرانہ جذبہ سے اپنی چھاتی کے ساتھ بھینچ
لیا اور بچّہ خوخو کرتا ہوا خلاء میں ہاتھ پانو ہلانے لگا۔ دمو نے اسے اتنا پیار
کیا کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ میں ان سب باتوں سے ڈاکٹر کے خوفناک ارادوں
سے مطلع ہو چکا تھا۔ ایک ڈاکٹر کے لیے یہ بات کون سی مشکل ہے۔ وہ دو تین دن تک سب
کو کہتا پھرے گا — بچّہ بیمار ہے — اور پھر ایک دن چپکے سے اسے سُلا دے گا— اس وقت
بچّہ گھناؤنے انداز میں خو خو کرنے لگا اور اپنے ہاتھ پانو موت و حیات کی کش مکش
میں اِدھر اُدھر ہلائے گا۔اس کی ماں جہاں کہیں بھی بیٹھی ہو گی، اُسے اپنے بچّے کی
تکلیف کا احساس ہو جائے گا۔ وہ یقینا اپنے وحشی ہوس راں شرابی خاوند کے اس جرم کو
برداشت نہ کرسکے گی۔
اگلے دن میں بینک سے واپسی پرحسبِ معمول سُنبل کے
سائے میں پہنچ گیا۔ وہاں وہی طالب علم اپنے مخصوص کھلنڈرے انداز میں دو گیندوں کو
بیک وقت اچھال کر پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کی کتابیں ہمیشہ کی طرح بند،
قریب کے درخت کے سائے میں پڑی تھیں۔ دمو اپنے بچّے کو لیے موجود تھی اور اپنے بچے
کے ساتھ اس کے پیار کی ہر لپٹ سے ظاہر ہوتا تھا کہ گذشتہ دن کی تمام باتیں اس کے
ذہن میں محفوظ ہیں اور وہ محبت کی ہر کروٹ کے ساتھ اپنے بچّے کو زندہ کر لیتی ہے۔
اس وقت وہ بچّہ رینگتا ہوا گاڑی سے کچھ دور سُنبل
کے نیچے آ گیا تھا اور سُنبل کے پھیکے بے مزہ پھل کو اپنے دانتوں سے پپول رہا تھا
اور اس کی ماں بچّے کو زندگی میں پہلی دفعہ چند قدم رینگتے ہوئے دیکھ کر خوش ہو
رہی تھی۔ میں اس وقت صنوبر کے سائے سے نکلا اور مارکیٹ سے چند قیمتی سُرخ مالٹے
خرید کر نسیم باغ کو لوٹ آیا۔ وہ بچّہ ابھی تک سرخ پھل کو پپول رہا تھا۔ میں نے
مالٹے اس کی طرف بڑھا دیے اور بچّہ رینگتا ہوا میری طرف آنے لگا۔ آخر اس نے ایک
مالٹا ہاتھ میں تھام لیا، اور میرے ہاتھ سے دوسرا مالٹا لینے کے لیے میری طرف
بڑھنے لگا۔ دمو میری طرف متوجہ ہوئی —مجھے اس کے چہرے سے اس کے جذبات کا پتہ چل
رہا تھا۔ وہ سوچتی تھی، شاید اس کا بچّہ جسے کل ہی اس کا وحشی شوہر محض اس بناء پر
مار ڈالنا چاہتا تھا کہ وہ ان کی محبت کے راستے میں خلل انداز تھا۔ کسی آسمانی
برکت کے نزول سے چلنے لگے۔ اس کے چہرے پر امید و بیم کے تاثرات دکھائی دینے لگے۔
اگلے دن میں نے بازار سے چند ایک رنگ دار غبارے
خریدے اور انھیں دھاگے سے باندھ کر بچّے کے پاس رکھ دیا اور جب وہ نزدیک آ کر
انھیں پکڑنے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے دھاگا کھینچنا شروع کر دیا اور غبارے میری
طرف سرکنا شروع ہو گئے اور بچہ آہستہ آہستہ رینگتا رینگتا ان غباروں کی طرف بڑھنے
لگا۔
دمو نے قریب آتے ہوئے کہا
’’دھاگہ کو ذرا آہستہ آہستہ کھینچیے۔‘‘
میں نے دھاگہ کو آہستہ کھینچتے ہوئے کہا — ’’نہیں
تو … اسے ذرا تیز چلنے کی مشق کرنی چاہیے۔‘‘
اس کے بعد وہ خاموش ہو گئی اور اپنی پرانی جگہ،
جہاں کہ وہ ہر روز بیٹھا کرتی تھی، واپس چلی گئی۔ پھر آئی اور پھر چلی گئی۔ لیکن
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ وہاں بیٹھ نہیں سکتی۔ کچھ دیر بعد بچے کا لعاب آلودہ
فراک بدلنے کی غرض سے وہ پھر چلی آئی اور میں نے کہا۔
’’محترمہ!— کون جانے اس کا لقوہ بھی اچھا ہو
جائے۔‘‘
دمو کا چہرہ چمک اُٹھا۔
کئی روز ایسا ہی ہوتا رہا۔ میں ہر زور بینک سے
لوٹتے ہوئے اس بچّے کے لیے کچھ نہ کچھ لے جاتا۔ آخر ایک دن میں نے بہت دیر تک بچّہ
کو گود میں اُٹھائے رکھا۔ میں نے اپنی جیب سے رُومال نکال اور اس کا لعاب سے بھرا
ہوا منھ پونچھا۔ اس کے بعد میں نے بچّہ کا منھ چوم لیا۔
دمو کا چہرہ حیا سے سُرخ ہو گیا۔ تھوڑے سے گومگو
کے بعد وہ میرے قریب آ گئی اور مسکرانے لگی۔
اس وقت سنبل کا درخت تیز ہَوا کی وجہ سے زور زور
سے ہل رہا تھا اور وہ کھلنڈرا طالب علم سرد ہَوا کے جھونکوں سے متاثر
ہو کر وہی گیٹ گنگنانے لگا۔
جب سردی آتی ہے تو بہار دور نہیں رہ جاتی۔
اس وقت لقوہ زدہ بچّہ میری گود سے اتر کر ہمارے
پاؤں میں رینگنے لگا۔ اور ہم دونوں جانتے تھے کہ اس کا لقوہ ٹھیک نہیں ہو سکتا۔
٭٭٭
No comments:
Post a Comment